بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیم میراث


سوال

میرے والد کا انتقال ہوا ہے، ان کے ورثاء میں ۲ بیوہ  تھیں، پہلی بیوی کا ایک بیٹا، دوسری بیوہ سے پانچ بیٹے اور چار  بیٹیاں تھیں۔ پھر دوسری بیوہ کے ایک بیٹے کا انتقال ہوگیااس کے بال بچے نہیں ہیں۔ مذکورہ ورثاء میں میراث کیسے تقسیم ہوگی؟راہ نمائی فرمائیں۔والد صاحب کی ملکیت میں ایک گودام، ایک پلاٹ اور ایک اور بڑا مکان ہے جس میں سب ورثاء ایک ساتھ رہتے ہیں  جس کی مالیت دس کروڑ بنتی ہے۔

وضاحت: پہلی بیوی  کااور دوسری بیوی سے ہونے والے ایک بیٹے کا والد سے پہلے انتقال ہوا ہے۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ والد مرحوم کے تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کرنے کے بعد، والد مرحوم پر اگر کوئی قرض تھا تو قرض ادا کرنے کے بعد ، اور اگر والد نے کوئی جائز وصیت کی تھی تو ایک بقیہ مال کے ایک تہائی میں اس وصیت کو نافذ کرنے کے بعد باقی متروکہ منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کو 112 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، اس میں سے بیوہ کو 14 حصے، ہر زندہ بیٹے کو 14 حصے اور ہر بیٹی  کو 7 حصے ملیں گا۔باقی مرحوم کی وہ بیوی اور بیٹا جو مرحوم کی زندگی میں انتقال کر گئے تھے ان کا مرحوم کی میراث میں حق نہیں ہے۔

میت:8/ 112

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
1414141414147777

یعنی بیوہ کو 12.5فیصد، ہر بیٹے کو 12.5فیصد اور ہر بیٹی کو 6.25 فیصد ملے گا۔

پس اگر مرحوم کی جائیداد دس کروڑ میں فروخت ہوجاتی ہے تو پھر دس کروڑ میں سےبیوہ کو  12,500,000 روپے , ہر زندہ بیٹے کو12,500,000روپے اور ہر بیٹی کو  6,250,000 روپے ملیں گے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100906

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں