بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں شریک بھائی اور چچا زاد بھائیوں کی اولاد میں وراثت کی تقسیم


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا جس کا   باپ، بیٹا ،چچا،پھوپھی، چچا زاد بھائی یا  چچا زاد بہن سب فوت ہو چکے، وہ جسمانی طور ناتواں تھے۔وہ کوئی بھی کام کاج کرنے کے لائق نہ تھے۔ اس کی کفالت پورے 50 سال تک اس کے ماں شریک بھائی نے کی،  اب  چوں کہ اس کا انتقال ہوا، اب اگر اس نے ترکہ میں ایک لاکھ روپے چھوڑے ہوں تو وہ کس کو  ملیں گے۔  چچا زاد  بھائی کے  بیٹوں اور  ماموں زاد بھائی اور ماں شریک بھائی کی موجودگی میں درج ذیل بالا وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ سے مرحوم کے تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت (ورثاء کے علاوہ کسی کے لیے) کی ہو تو ایک تہائی مال میں وصیت نافذ کرنے کے بعد باقی مال کو  چچا زاد بھائی کے بیٹوں اور ماں شریک بھائی کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ ماں شریک بھائی کو چھٹا حصہ  ملے گا اور  باقی چچا زاد بھائی کے بیٹوں میں برابر تقسیم ہوگا یعنی ایک لاکھ روپے میں سے 16666.666 روپے ماں شریک بھائی کو ملیں گے  اور باقی 83333.333 روپے چچا زاد بھائیوں میں برابر تقسیم ہوں گے۔ماموں زاد بھائی کو کچھ نہیں ملے گا ۔

(نوٹ: یہ تقسیم اس صورت میں ہے جب ماں شریک بھائی ایک ہو، اگر مرحوم کے ماں شریک بھائی یا بہن ایک سے زائد ہیں تو پھر تفصیلات کے ساتھ سوال دوبارہ ارسال کر کے جواب معلوم کریں)۔ 

نیز یہ بھی واضح رہے کہ مرحوم کی زندگی میں مرحوم کے  اخراجات پورا کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ اولاً مرحوم کے پاس جو مال تھا اس سے اخراجات پورےکیے جاتے اور اس مال کے ختم ہوجانے کے بعد مرحوم کے موجود محرم ورثاء اپنے حصہ کے تناسب کے بقدر  مرحوم کے اخراجات کے ذمہ دار تھے  اور  چوں کہ صورتِ  مسئولہ میں محرم وارث  ماں شریک بھائی ہی تھے، چچا زاد بھائی وارث تو تھے مگر محرم نہ تھے؛  لہذا سارے اخراجات ماں شریک بھائی ہی پر واجب تھے اور انہوں نے اس واجب کی ادائیگی کردی جس پر وہ ماجور ہوئے،   لیکن اس واجب کی ادائیگی کے  بدلہ میں ورثہ کے شرعی حصہ میں اضافہ نہیں ہوگا۔

الفتاوى العالمكيرية  میں ہے:

«والنفقة لكل ذي رحم محرم إذا كان صغيرًا فقيرًا، أو كانت امرأة بالغةً فقيرةً، أو كان ذكرًا فقيرًا زمنًا، أو أعمى و يجب ذلك على قدر الميراث و يجبر، كذا في الهداية. و تعتبر أهلية الإرث لا حقيقته، كذا في النقاية."

(کتاب الطلاق باب النفقہ ج نمبر ۱  ص نمبر ۵۶۵،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

«والمعتبر فيه) أي الرحم المحرم (أهلية الإرث لا حقيقته) إذ لا يتحقق إلا بعد الموت، فنفقة من له خال وابن عم على الخال؛ لأنه محرم؛ ولو استويا في المحرمية كعم وخال رجح الوارث للحال ما لم يكن معسرا فيجعل كالميت»

(قوله: و لو استويا في المحرمية إلخ) أي وفي أهلية الإرث ذخيرة. قال في الفتح: والحاصل أن قوله أهلية الميراث لا إحرازه فيما إذا كان المحرز للميراث غير محرم ومعه محرم، أما إذا ثبت محرمية كلهم و بعضهم لايحرز الميراث في الحال كالخال والعم إذا اجتمعا فإنه يعتبر إحراز الميراث في الحال وتجب على العم."

(کتاب الطلاق باب النفقہ ج نمبر ۳ ص نمبر ۶۳۰،ایچ ایم سعید)

الفتاوى العالمكيرية  میں ہے:

«ولو كان له خال من قبل الأب والأم وابن عم لأب وأم فالنفقة على الخال، والميراث لابن العم؛ لأن شرط وجوب النفقة هو أن يكون ذو الرحم المحرم من أهل الميراث، ولو كان رحما غير محرم نحو ابن عم، وهو أخوه من الرضاع لا تجب النفقة كذا في شرح الطحاوي».

(کتاب الطلاق باب النفقہ ج نمبر ۱ ص نمبر ۵۶۶،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں