بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیمِ وراثت کے حوالے سے متعلق سوال


سوال

وراثت کی تقسیم کا عمل اور فیصلہ کا صحیح طریقہ اور وقت کیا ہے؟

جواب

مورِث کی موت  کے بعد  اس کا تمام ترکہ  منقولہ و غیر منقولہ اس کے شرعی ورثاء کے درمیان حصصِ شرعیہ کے تناسب سے تقسیم کردینا چاہیے، اس کے لیے شرعاً کوئی وقت مقرر نہیں ہے، تعزیت کرنے والوں سے جب فرصت ہوجائے تو جلد ہی اس کی ترتیب بنالینی چاہیے، بلاوجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، تاخیر کے نتیجے میں بسا اوقات اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں، بہرحال  ترکے کی تقسیم میں تاخیر  کی صورت میں ترکہ میں جو کچھ بھی اضافہ ہوگا، وہ بھی مرحوم کا ہی ترکہ شمار  ہوگا، اور اس میں بھی باقی تمام ورثاء شریک ہوں گے، اگرچہ اضافہ کا ظاہری سبب کسی ایک وارث کا عمل ہو۔

شرح المجلہ میں ہے:

"تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم". ( كتاب الشركة، ص: ٢٢، المادة: ١٠٧٣، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ليس لأحد ان يأخذ مال غيره بلا سبب شرعي، و لو أخذه على ظنّ أنه ملكه وجب عليه ردّه عينًا إن كان قائمًا، فيضمن قيمته إن كان قيميًّا و مثله إن كان مثليًّا". ( ٦ / ٢٠٠، ط: سعيد)

سوال کا مقصد اگر کسی مخصوص صورت کا حکم جاننا ہے تو ورثاء کی مکمل تفصیل، ( یعنی مرحوم کی وفات کے وقت کون کون حیات تھے، والدین، بیوہ اور اولاد کی تعداد مع لڑکے اور لڑکیوں کی تفصیل)

ورثاء میں سے اگر کوئی وفات پا گیا ہو، تو اس کی مکمل تفصیل درج کرکے سوال ارسال کردیا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں