بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیم سے قبل جائیداد میں سے اپنا حصہ فروخت کرنا


سوال

جائیداد کی تقسیم سے پہلے ایک بھائی نے اپناآدھا حصہ بیچ دیا جو ایک کونے میں تھا یعنی کھیت کے بائیں جانب اور اس کے عوض دوسری زمین خریدار سے لے لی۔ کیا اب یہ زمین جو اپنا حصہ بیچ کر بدلے میں لی گئی ہے کیا یہ بھی تقسیم کے وقت  ورثہ میں تقسیم ہوگی؟کچھ ورثاء کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ تقسیم سے پہلے  اپنا حصہ بیچ کرخریدی گئی ہے تو ہمیں بھی اس میں حصہ دو، حالانکہ  ان ورثاء کا اپنا حصہ پورا ابھی بھی موجود ہے ۔ کیا تقسیم سے پہلے اپنا حصہ بیچنا جائز ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر تقسیم سے قبل ایک وارث نے فقط اپنے حصے  کےبقدر زمین فروخت کی ہے، اور اس کے بدلے میں دوسری زمین خریدی ہے، تو مذکورہ وارث کا اپنے حصے کو فروخت کرکے اس کے بدلے زمین خریدنا جائز ہے، یہ زمین فقط اسی ایک شریک کی شمار ہوگی، تمام ورثاء میں تقسیم نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكل) من شركاء الملك (أجنبي) في الامتناع عن تصرف مضر (في مال صاحبه)؛ لعدم تضمنها الوكالة (فصح له بيع حصته ولو من غير شريكه بلا إذن".

وفی الرد: "فبيع كل منهما نصيبه شائعا جائز من الشريك والأجنبي" .

(ج:۴،ص:۳۰۰، کتاب الشرکۃ، ط؛ سعید)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحرمیں ہے :

"وكل منهما أي كل واحد من الشريكين أو الشركاء شركة ملك أجنبي في نصيب الآخر حتى لايجوز له التصرف فيه إلا بإذن الآخر".

(ج:۲،ص:۵۴۳،ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144310101271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں