بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیم سے پہلے مشترک گھروں کے کرایہ کا حکم


سوال

میرے والد صاحب نے چار شادیاں کی ہیں،بوقت انتقال صرف ایک بیوی(میری والدہ) نکاح میں ہے، باقی تین بیویوں میں سے  ایک کا انتقال ہوا ہے،اور دو طلاق شدہ ہیں،اور والد صاحب نے مرض الموت میں  کہا تھا،کہ میری پراپرٹی تم تمام ورثاء میں تقسیم کرنا،اب چونکہ پراپرٹی فروخت نہیں ہوئی ہے، پراپرٹی میں چند گھروں کا کرایہ آتاتھا،والد صاحب نےکہا تھا، کہ اس کرایہ سے میری اہلیہ(جو میری نکاح )میں ہے،اور میرے بچوں کے اور گھر کے اخراجات پورا کیا جائے،اور میرا قرضہ اتارا جائے،اب  والد صاحب کی طلاق شدہ بیوی اور اس کے بیٹے وغیرہ یہ کہہ رہے ہیں،کہ اس کرایہ میں ہمارا بھی حق ہے،اور  کہتے ہے،کہ اگر ہمارا حق نہیں دیتے ہوں،تو تم  لوگ حرام کھاتے ہوں،کیا ہمارے لیے اس طرح کرنا جائز ہے،شریعت کا کیا حکم ہے،راہ نمائی فرمائیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں اس کے تمام شرعی ورثاء  اپنے اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے حق دار ہوتے ہیں، اور کسی ایک وارث کے لیے جائز نہیں، کہ وہ  دوسرے وارث کے حصے کو اس کی رضامندی کے بغیر اپنے ذاتی استعمال میں لائے۔

 لہٰذاصورتِ مسئولہ میں سائل کے  والد صاحب کے مذکورہ متروکہ کرایہ کے مکانوں  میں  ان کے تمام  ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے اعتبار سے حق دار ہیں ،سائل  نے مکانوں  کا جو کرایہ حاصل کیاہے،  وہ تمام ورثاء کا حق ہے ، اور سائل نے اپنے حصہ سے زائد جتنا کرایہ استعمال کیاہے،وہ ان کے ذمے قرض ہے  ، ان  پر لازم ہے،کہ وہ کرایہ کی رقم میں سے باقی ورثاءکا شرعی حصہ ادا کریں، ورنہ سخت گناہ گار ہوں گا ،اورآئندہ جب تک جائیداد فروخت نہیں ہو جاتی، مکانوں کا کرایہ بھی تمام ورثاء میں شرعی حساب سے تقسیم کرنا ضروری ہے۔

 نوٹ: ترکہ کی تقسیم کا طریقہ معلوم کرنے کے لیے ورثاء کی تفصیل کے ساتھ سوال دوبارہ  جمع کریں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:61، ط: سعید)

و فیہ ایضاً:

"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."

(كتاب الغصب،مطلب فيما يجوز من التصرف بمال الغير بدون إذن صريح، ج:6، ص:200، ط: سعید)

شرح المجلہ میں ہے:

"لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه أو وكالة منه أو ولاية عليه و إن فعل كان ضامناً."

(‌‌المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادۃ:96،  ج:1، ص:51، ط: رشیدیه)

و فیہ ایضاً:

"لایجوز لأحد أن یاخذ مال أحد بلا سبب شرعي و إن أخذ ولو علی ظن أنہ ملکه وجب علیه ردہ عینا إن کا ن قائما وإلا فیضمن قیمته إن کان قیمیا."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،المادۃ:97،ج:1، ص:51 ، ط: رشدیه) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100737

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں