بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کے انتقال کے بعد انتقال کرنے والے بھائی بہنوں کا مرحوم بھائی کی میراث میں حصہ ہوگا یا نہیں ؟


سوال

 1- ہمارے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے،ان کی بیوہ حیات ہے، مگر ان کی کوئی اولاد نہیں ہے،  ان کے ترکے کا کیس کورٹ میں چل رہا ہے، دورانِ کیس ہماری ایک بہن اور ایک بھائی کا بھی  انتقال ہوگیا ہے،قانون اور شرح کے حساب سے ان فریقین کی اولاد ترکہ میں شامل ہے؟

2- ابھی ایک ہفتہ ہوا ایک اور بہن کا انتقال ہوگیا، جو غیرشادی شدہ تھی،تو  آیا اس  کے انتقال کے بعد وہ اس ترکے کے حصے میں شامل ہے؟ 

3-اب ان کے ایک بھائی اور ایک بہن حیات ہیں، آیا اگر یہ حصے میں شامل ہیں تو کیا ان کا ترکہ صرف بہن اور بھائی کو ملے گا، یا باقی جو بہن بھائی انتقال کرگئے ہیں،ان کو بھی ملےگا۔

وضاحت:بھائی کے انتقال سے پہلے والدین انتقال کرچکے،بھائی کے انتقال کے وقت تین بہنیں اور دو بھائی حیات تھے،بھائی کے انتقال کے بعد دو بہنیں اور ایک بھائی کا انتقال ہوا،جس میں سے ایک بہن شادی شدہ اور اولاد والی تھی،اور دوسری بہن غیر شادی شدہ تھی،اور جس بھائی کا  ان کے بعد انتقال ہوا ،وہ بھی شادی شدہ اور اولاد والا تھا۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ میت کی وفات کے وقت اس کے جو جو ورثاء زندہ ہوتے ہیں ،ان سب کو میت کی ترکہ میں سے حصہ ملتا ہے ،اگر چہ بعد میں تقسیم سے پہلے ان ورثاء میں کسی کا انتقال ہوجائے ،تو وہ پھر بھی ترکہ سے محروم نہیں ہوتے۔

اور اگر تقسیم ترکہ سے پہلے کسی وارث کا انتقال ہوجاتاہے ،تو اس کو ملنے والا حصہ اس کے ورثاء کو مل جاتا ہے ۔

1-اس تمہید کے بعد آپ کے مسئلہ کا جواب یہ ہے کہ جس بہن بھائی کا دوران کیس انتقال ہوا،وہ چوں کہ  اپنے مورث (بڑے بھائی ) کی وفات کے وقت زندہ تھے، اسی لیے ان کو بڑے بھائی کی میراث میں سے حصہ ملے گا،اور اب ان  بھائی بہن کے انتقال کے بعد ان کا وہ حصہ ان کی اولاد کو مل جائے گا۔

2-جس  بہن کا ابھی انتقال ہوا ہے وہ بھی چوں کہ مرحوم بھائی کی وفات کے وقت زندہ تھی ،اسی لیے اس کو بھی مرحوم کے ترکہ میں سے حصہ ملے گا،اور پھر اس کے انتقال کے بعد اس  کا وہ حصہ آپ بہن بھائیوں میں دو اور ایک کے تناسب سے تقسیم ہوجائے گا،کہ بھائی کو دو حصے اور بہن کو ایک حصہ ۔

3-جس بھائی بہن کا انتقال مرحوم بڑے بھائی کی وفات کے بعد ہوا ہے ،ان کو بھی حصہ ملے گا،اور اب ان کے انتقال کے بعد ان کا وہ حصہ ان کے ورثاء میں تقسیم ہوجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أن شرط الإرث ‌وجود ‌الوارث حيا عند موت المورث."

(كتاب الفرائض، ج6، ص:469، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں