بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیمِ ترکہ سے پہلے بیٹی فوت ہوجائے تو کیا اس کا شوہر اور اولاد نانا اور سسر کی کے ترکہ کے حق دار ہوں گے یا نہیں؟


سوال

یہ ایک مشکل وراثت کا معاملہ ہے ،ہم تین بہن بھائی تھے،دو بہنیں اور ایک بھائی (میں) ،میرے والد کا انتقال 1993ء میں ہوا،اور وہ میری والدہ اور ہم تین بھائی بہنوں کو پیچھے چھوڑ گئے،میرے والد کے پاس ایک جائیداد تھی اورمیں نے والد کی وفات کے بعد  اکلوتا بیٹا ہونے کے ناطے اس جائیداد کی ملکیت اپنے نام کر لی ،میری دو بہنیں  اور والدہ رضا کارانہ طور پر رجسٹرار کے سامنے جائیداد کے اپنے حقوق سے دستبردار ہو گئیں ،اور بتایا کہ انہیں اس جائیداد سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے،تاہم جیسے جیسے میں بڑا ہوا میں نے محسوس کیا کہ شریعت کے مطابق انہیں باپ کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے ،چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ میں جائیداد فروخت ہونے کے بعد انہیں ان کا حصہ دینے کا ذمہ دار ہوں ،اور ان کا حصہ موجودہ مارکیٹ کی  قیمتِ فروخت  کے مطابق ہوگا،اس لیے وہ پریشان نہ ہوں ،ان کا حصہ  بھی اتنا ہی بڑھ رہا ہے جتنا میرا،انہوں نے نہ اپنے حصے کا مطالبہ کیا اور نہ ہی جائیداد بیچنے کا کہا جو ابھی تک میری تحویل میں ہے،پچھلے سال 2021ء میں میری ایک بڑی بہن فوت ہوگئی اور اپنے پیچھے اپنے چار  چھوٹے  بچے اور شوہر چھوڑ گئی،اب میں اس پراپرٹی کو بیچنے کا ارادہ رکھتا ہوں ،ابھی والد کے ورثاء میں  میری ایک اور بڑی بہن،میری والدہ اور میں الحمدللہ  حیات ہیں ۔

میں اپنی مرحومہ بہن  کے حصے کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں ،کیا شریعت کے مطابق اس  کا حصہ اب بھی دیا جائے گا؟ اگر ہاں تو کسے ،بچوں کو  یا شوہر کو؟

جواب

واضح رہے کہ والد  کی وفات کے ساتھ ہی اس کی اولاد اپنے اپنے  شرعی حق کے بقدر مرحوم کے ترکہ کی حق دار ہوجاتی ہے، پس تقسیمِ ترکہ سے پہلے اگر کسی وارث کا انتقال ہوجائے تو اس کا حصہ اس کے ورثاء کو منتقل ہوجاتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل کی جس بہن  کاوالد کے ترکہ کی  تقسیم سے پہلے انتقال ہوگیا ہے، اس کے ورثاء (شوہر،والدہ اور4 بچے)  سائل کے والد سے ملنے والے مرحومہ کے  حصے کے حقدار ہوں گے۔

صورتِ مسئولہ  میں  اگر سائل کے دادا،دادی سائل کے والد سے پہلے انتقال کر گئے ہوں تو  اس صورت میں  سائل کے والد مرحوم کے ترکہ کی شرعی تقسیم کاطریقہ کار یہ ہے کہ مرحوم کے ترکہ میں سے پہلے ان کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ نکالنے کےبعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے باقی ترکہ میں سے اداکرنے کےبعداگر انهوں   نے کوئی جائز وصیت کی ہو تواسے باقی ترکہ کے ایک تہائی میں سے نافذکرنے کےبعد ،باقی کل ترکہ  منقولہ وغیرمنقولہ کے32حصے کرکے   بیوہ کو4  حصے،بیٹے کو14حصے اورہرایک بیٹی کو7 حصے  ملیں  گے۔

 صورت تقسیم یہ ہے:

میت:32/8۔۔۔والد۔۔۔مض 4

بیوہبیٹابیٹیبیٹی
17
41477

یعنی 100 روپے میں سے مرحوم والد کی بیوہ کو 12.5روپے ،بیٹے کو 43.75روپے اور ہر  بیٹی کو 21.875روپے ملیں گے۔

پھر  سائل کی جس بہن کا انتقال ہو گیا ہے اس کے ورثاء کی تفصیل یعنی کتنے بیٹے اور کتنی بیٹیاں ہیں بتا کر اس کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100396

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں