بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیم میراث میں عول کا ثبوت


سوال

 فرائض سے متعلق ایک مسئلہ کی تحقیق مقصود ہے ،وہ یہ کہ اگر میت کے ورثا میں شوہر ،دو بیٹی ،ماں اور باپ موجود ہوں تو 12سےمسئلہ کی تخریج ہوتی ہے اور ہر فریق کا مجموعی حصہ 15ہونے کی وجہ سے مسئلہ عائلہ ہوجاتا ہے نتیجتاً شوہر کو 12کے بجائے 15حصوں میں سے تین حصے ملتے ہیں جو یقیناً پورے ترکہ کی چوتھائی سے کم ہے،اسی طرح بیٹی کو 15حصوں میں سے 8حصے اور ماں ،باپ کو 15حصوں میں سے دو دو حصے ملتے ہیں جو ان کے مقررہ حصے ثلثان اور سدس سے کم ہے،یہی صورت حال تقریباً ہرمسئلہ عائلہ میں پیدا ہوتی ہے،کہ اصحاب الفرائض کو ان کے حصہ مقررہ سے کم ملتا ہے، حال آں کہ  ان کے  حصے منصوص و مصرح  ہیں۔تحقیقی جواب عنایت فرماکر ممنون  فرمائیں !

جواب

مسئلہ عائلہ کی صورت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران پیش آئی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورے اور اتفاق سے  عول پر فیصلہ کیا؛ لہذا عول کا مسئلہ  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اجماع سے ثابت ہے۔

مستدرک حاکم میں ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه قال: «أول من أعال الفرائض عمر رضي الله عنه، وايم الله لو قدم من قدم الله، وأخر من أخر الله ما عالت فريضة»، فقيل له: وأيها قدم الله وأيها أخر؟ فقال: «كل فريضة لم يهبطها الله عز وجل عن فريضة إلا إلى فريضة، فهذا ما قدم الله عز وجل، وكل فريضة إذا زالت عن فرضها لم يكن لها إلا ما بقي فتلك التي أخر الله عز وجل كالزوج والزوجة والأم، والذي أخر كالأخوات والبنات، فإذا اجتمع من قدم الله عز وجل ومن أخر بدئ بمن قدم، فأعطي حقه كاملا، فإن بقي شيء كان لمن أخر، وإن لم يبق شيء فلا شيء له».

وقال: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه."

(أخرجه الامام ابو عبد الله الحاكم في المستدرك في كتاب الفرائض (4/ 378) برقم  (7985)، ط. دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الأولى: 1411 = 1990)  

تفسیر مظہری میں ہے:

"(مسئلة) ٲجمعوا على ٲنه إذا ازدادت الفرائض على سهام التركة دخل النقص على كل واحد منهم على قدر حصّته، وتسمى المسألة عائلة اى مائلة عن مساوات التركة الأسهم بالتعارض  وعدم الترجيح وبالقياس على الديون إذا زادت على التركة وقد انعقد عليه الإجماع فى زمن عمر رضى الله عنه حين ماتت امراة عن زوج وأختين فجمع الصحابة فاستشارهم فقال ارايت لو مات رجل وترك ستة دراهم وعليه لرجل ثلاثة ولرجل اربعة أليس جعل المال سبعة اجزاء فاخذت الصحابة بقوله رضى الله عنهم ".

(التفسير المظهري: تفسير سورة النساء (2/ 36، 37)، ط. مكتبة الرشدية - الباكستان، الطبعة: 1412 هـ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وأول من حكم بالعول عمر - رضي الله تعالى عنه -) فإنه وقع في صورة ضاق مخرجها عن فروضها فشاور الصحابة فأشار العباس إلى العول فقال أعيلوا الفرائض فتابعوه على ذلك ولم ينكرهأحد إلا ابنه بعد موته وتمامه في شرح السيد وغيره".

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الفرائض، باب العول (6/ 786، 787)، ط. سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100997

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں