بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، چار بیٹوں اور دو بیٹیوں میں تقسیمِ میراث


سوال

  زید کا انتقال ہوا ترکہ میں 24 بیگہ زمین چھوڑی  ہے،ورثاء بیوہ، چار بیٹےاور دو بیٹیاں ہیں،  انتقال کے بعد  چاروں بیٹوں نے آپس میں 24 بیگہ زمین تقسیم کرلی, ماں اور بہنوں کو کچھ نہیں دیا، اب ایک بھائی کو تنبیہ ہوا وہ اپنی ماں اور دونوں بہنوں کو اپنے حصے کی زمین سے دینا چاہتا ہے، اب اس پر ماں اور بہنوں کو کتنا دینا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ آدمی کے ترکہ میں بیوہ او اولاد(بیٹوں،بیٹیوں)کے حصے قرآن کریم میں مقرر کئے گئے ہیں،ہر ایک وارث کو اس کا شرعی حق و حصہ دینا لازم اور ضروری ہے،ورثاء کو شرعی حصوں سے محروم کرنے والوں کے بارے میں قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں، حدیثِ مبارک میں  اس پر بڑی وعیدیں آئی ہیں ، حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی،  ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے  ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  زید مرحوم کی مذکورہ  جائیداد پر چاروں بیٹوں کا قبضہ کر کے بیوہ اور بیٹیوں کو محروم کرنا بدترین گناہ ہے،ان پر لازم ہے کہ ہر وارث کو اس کا پورا پورا شرعی حصہ ادا کریں،مرحوم کے  ترکہ کی تقسیم  کا طریقہ یہ ہے کہ  سب سے پہلےمرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحومنے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی مال میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کو 80حصوں میں تقسیم کر  کے 10حصے  مرحوم کے بیوہ کو،14 حصے   مرحوم  کے ہر ایک بیٹے  کو ،  7 حصے  مرحوم کے  ہر ایک بیٹی کو  کوملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:8/ 80

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
101414141477

یعنی  100 میں فیصد کے اعتبار سے12.50فیصد  مرحوم کی بیوہ کو ،17.50 فیصد  مرحوم کے ہر ایک بیٹے  کو ،  8.75فیصدمرحوم کے  ہر ایک بیٹی کو   کوملیں گے۔

لہذا بیوہ  کا اپنےہر ایک بیٹے کو  ملنے والی زمین میں12.50 فیصد حصہ ہے ،اور ہر ایک بہن کا 8.75 فیصد حصہ ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن سعيد بن زيد ابن عمرو بن نفيل:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال"من ‌اقتطع ‌شبرا من الأرض ظلما، طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين."

(كتاب المساقاة، باب تحريم الظلم و غصب الأرض و غيرها، ج؛3، ص:1230، ط: دار إحياء التراث العربي)

مشکاۃ  المصابیح میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه."

(کتاب الوصایا، ج:2، ص:926، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله - سبحانه وتعالى - أعلم."

( كتاب الحدود، فصل في بيان صفات الحدود، ج:7، ص:57، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله إلا في حق الوارث إلخ) أي فإنه إذا علم أن كسب مورثه حرام يحل له، لكن إذا علم المالك بعينه فلا شك في حرمته ووجوب رده عليه، وهذا معنى قوله وقيده في الظهيرية إلخ، وفي منية المفتي: مات رجل ويعلم الوارث أن أباه كان يكسب من حيث لا يحل ولكن لا يعلم الطلب بعينه ليرد عليه حل له الإرث والأفضل أن يتورع ويتصدق بنية خصماء أبيه. اهـ وكذا لا يحل إذا علم عين الغصب مثلا وإن لم يعلم مالكه، لما في البزازية أخذه مورثه رشوة أو ظلما، إن علم ذلك بعينه لا يحل له أخذه، وإلا فله أخذه حكما أما في الديانة فيتصدق به بنية إرضاء الخصماء اهـ. والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب فيمن ‌ورث ‌مالا حراما، ج:5، ص:99، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102842

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں