بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کی تقسیم سے پہلے وارث کا اپنے حصے سے دستبردار ہوجانا


سوال

ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں،ہمارے والد صاحب کا  انتقال 1995 میں ہوا،اس وقت تین بہنیں شادی شدہ تھیں، اور باقی ایک بہن اور ہم دو بھائی والدہ کے ساتھ رہتے تھے، والد کے انتقال کے وقت ان کی ساری جائیداد والدہ کے نام پر تھی، البتہ ملکیت والد کی ہی تھی، والدہ کے صرف نام پر تھی،پھر 2001ء میں ہم نے ایک فلیٹ 12 لاکھ میں خریدا،جس میں چھ لاکھ  ہم دو بھائیوں نے مل کر ادا کیے، اور باقی کے چھ لاکھ والدہ نے والد کا ایک  فلیٹ جو کہ ان کے نام پر تھا بیچ کر  دیے،یہ فلیٹ والدہ نے ہم دو بھائیوں کے نام کردیا،2005 میں ہماری والدہ کا انتقال ہوگیا،اس وقت ہمارے پاس یہ فلیٹ تھا، اور تب اس کی قیمت 16 لاکھ ہوگئی تھی،بہنوں نے اس وقت ترکہ کا تقاضہ نہیں کیا، اور بڑی بہن جو کہ والدہ کے انتقال کے بعد سربراہ تھی اس نے سارے ورثاء کی طرف سے ہمیں  اپنا حق معاف کردیا،لیکن اب 2020 میں ایک بہن نے ترکہ کا تقاضا کیا، والدہ کے انتقال کے وقت کسی نے تقاضہ نہیں کیا تھا،لیکن یہ فلیٹ ہم 2013 میں 22 لاکھ کا فروخت کرچکے تھے،اور حاصل شدہ رقم دونوں بھائیوں نے آپس میں بانٹ دی تھی،اب 2020 میں اس فلیٹ کی قیمت 65سے 70 لاکھ کا ہے۔

1۔لہٰذا معلوم یہ کرنا ہے کہ اس میں بہنوں کا حصہ تھا؟

2۔اگر ہاں  تو اس فلیٹ میں آدھی رقم ہماری ذاتی بھی تھی، تو  ترکہ فلیٹ کی کل قیمت ہوگا یا 50 فیصد قیمت میں ترکہ جاری ہوگا،اور فلیٹ کی کونسی قیمت  کے حساب سے ترکہ تقسیم ہوگا؟ قیمتِ خرید،قیمت  فروخت یا پھر والدہ کے انتقال کے وقت فلیٹ کی جو قیمت تھی اس حساب سے ترکہ تقسیم ہوگا؟

3۔            اور 75 ہزار کے والدہ کے زیورات بھی  تھے، جو بہنوں نے والدہ کے انتقال کے بعدہماری شادی پر خرچ کیے تھے،  تو کیا وہ بھی لوٹانے ہوں گے؟ اگر ہاں تو کون لوٹائے  گا؟

جواب

1۔واضح رہے کہ  میراث کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصے سے بلاعوض دستبردار ہوجانا شرعا معتبر نہیں ہے،اس لیے  اگر کوئی وارث ایک مرتبہ اپنے حصے سے دستبردار ہوجائے اور بعد میں اس کا مطالبہ کرے ،تو شرعاً اس کا یہ مطالبہ درست ہوگا، دیگر ورثاء پر  ضروری ہوگا کہ اس وارث کو اس کا حصہ دے دیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں  سائل کی بہنوں کا دستبردار ہونے کے بعد اب اپنے حصوں کا مطالبہ کرنا شرعًا درست ہے ،اور دونوں بھائیوں پر لازم ہے کہ بہنوں  کو ان کا حصہ دےدیں۔

باقی سائل کا بیان اگر واقعۃً صحیح اور درست ہے کہ والدین کا ترکہ مذکورہ فلیٹ میں 50 فیصد تھا باقی پچاس فیصدرقم (6لاکھ)    سائل اور اس کے بھائی  کی  تھی،تو ایسی صورت جب 22 لاکھ روپے میں فلیٹ فروخت ہوا  تو اس میں 50 فیصد یعنی 11لاکھ والدین کا ترکہ شمار ہوگا،جو   سائل کے والدین کے تمام شرعی ورثاء (دو  بیٹوں اور چار بیٹیوں )  میں شریعت کے قاعدہ کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

مرحوم والدین کا  ترکہ انکے  ورثاء میں تقسیم کرنے کا  شرعی   طریقہ یہ ہےکہ سب سے پہلے ان کے کل ترکہ  میں سے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعد،اگر انکے ذمہ کسی کا  قرض ہو تو   اس  کی ادائیگی کے بعد ،اگر انہوں نے   کوئی جائزوصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی مال میں اس کو نافذ کرنے کے باقی ماندہ ترکہ   کے8  حصے کرکے دونوں  بیٹوں میں سے ہر ایک  کو  دو                   دو حصے    اور  چار بیٹیوں میں سے ہر ایک  کو    ایک   حصہ ملے گا۔             

 صورت تقسیم یہ ہے:

میت۔۔۔8

بیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
221111

یعنی11 لاکھ روپے میں سے ہر بیٹے کو275000 روپے،جب کہ ہر  ایک  بیٹی کو 137500 روپے ملیں گے۔

3۔  سائل کی والدہ  کے ترکہ میں  75000 ہزار روپے کے زیورات بھی تھے  جو سائل کے بیان  کے مطابق اس کی بہنوں نے  بغیر کسی معاہدہ  کےسائل اور اس کے بھائی کی شادی میں خرچ کئے تھے ،شرعًا  یہ زیورات چونکہ والدہ کے  ترکہ میں شامل تھے،  اس وجہ سے بہنوں کا اسے  خرچ کرنا اپنے حصے میں تبرع تھا،اب وہ  اپنے حصے  کا  مطالبہ نہیں کرسکتیں، البتہ اس میں چونکہ بھائیوں کا بھی حصہ تھا، لہٰذا وہ اگر اپنا حصہ لینا چاہیں تو بہنوں سے اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔

 العقود الدریۃ في تنقيح الفتاوى الحامدیہ ميں ہے:

"(سئل) في أحد الورثة إذا أشهد عليه قبل قسمة التركة المشتملة على أعيان معلومة أنه ترك حقه من الإرث وأسقطه وأبرأ ذمة بقية الورثة منها ويريد الآن مطالبة حقه من الإرث فهل له ذلك؟

(الجواب) : ‌الإرث ‌جبري لا يسقط بالإسقاط وقد أفتى به العلامة الرملي كما هو محرر في فتاواه من الإقرار نقلا عن الفصولين وغيره فراجعه إن شئت."

(العقود الدریہ في تنقيح الفتاوى الحامدیہ ،ج:2،ص:26،کتاب الدعوی)

 الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے:

"التَّبَرُّعِ بَذْل الْمُكَلَّفِ مَالاً أَوْ مَنْفَعَةً لِغَيْرِهِ فِي الْحَال أَوِ الْمَآل بِلاَ عِوَضٍ بِقَصْدِ الْبِرِّ وَالْمَعْرُوفِ غَالِبًا. "

(حرف التاٗ، تَبَرُّعٌ، ج:10، ص:65، صادر عن: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100570

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں