بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیم ِ میراث کا مطالبہ اور تقسیم


سوال

میں منوڑہ کراچی کا رہائشی ہوں، میرے والد کا 2014ء میں انتقال ہوچکا ہے، میرے ساتھ میری والدہ، بیوی، دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، اس کے علاوہ میری ایک بہن اور ایک بھائی ہے اور دونوں شادی شدہ ہیں، والد صاحب مندرجہ ذیل اثاثہ جات چھوڑ کر گئے ہیں،جن کی موجودہ مالیت درج ذیل ہے: ایک عدد مکان جس میں میری فیملی اور میری والدہ رہائش پذیر ہیں، اس کی مالیت 1 کروڑ روپے ہے، اسی طرح دو عدد پلاٹ (زمین) جس کا رقبہ 80، 80 گز ہیں ، ان دونوں پلاٹوں کی مالیت 16 لاکھ روپے ہے، اس کے علاوہ والد صاحب کی الماری میں کچھ سامان تھا جو میرے علم میں نہیں ہے ،کیوں کہ میری والدہ اور بہن نے الماری کے تالے کو میری غیر موجودگی میں توڑدیا تھا، میں اس وقت مالی مشکلات کا شکار ہوں ، میری بیوی کے گُردے فیل ہوچکے ہیں اور ہفتے میں 3 دن مجھے اپنی بیوی کے ساتھ ڈائیلیسس کروانے کے لیے ہسپتال لے کرجانا پڑتا ہے، اسی وجہ سے میں کہیں ملازمت نہیں کرسکتا، میرا ایک بیٹا نوکری پر ہے جو ایک پرائیویٹ ادارے میں ملازمت کرتا ہے، جس کی تنخواہ 24،000 روپے ہے، میری والدہ اور بہن مجھے زور دے رہی ہیں کہ والد کی وراثت تقسیم کروں، آپ سے گزارش ہے کہ میری راہ نمائی فرمائیں کہ:

1۔ اسلام کے اس معاملے میں کیا احکامات ہیں؟

2۔ مندرجہ بالا صورت میں جائیداد کی تقسیم کے لیے بھی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کےوالد  کے انتقال کے بعد اس کی میراث (اگر اس پر قرض وغیرہ ہو تو اسے کل مال سے  ادا کرنے اور اس نے جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد)ورثاء میں جلدازجلدمیراث تقسیم کرنا ضروری ہے ؛ کیوں کہ متروکہ مال میں ورثاء کا حق ہوتاہے،اس لیے میراث کو  ورثاء کے مطالبہ کے باوجود تقسیم  نہ کرنا شرعاً جائز نہیں ۔

باقی مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوق ِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو  اسے کل مال سے ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 40 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو 5حصے اور مرحوم  کے ہر بیٹے کو 14 حصے اور بیٹی کو 7 حصے ملیں گے ۔

صورت ِ تقسیم یہ ہے :

میت: 40/8

بیوہبیٹابیٹابیٹی
17
514147

یعنی فیصد کے اعتبار سے مرحوم کی بیوہ کو 12.50فیصد اور مرحوم کے ہر بیٹے کو 35 فیصد اور مرحوم کی بیٹی کو 17.50فیصد ملے گا ۔

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے :

"المادة (1130) إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر فيقسمه القاضي جبرا إن كان المال المشترك قابلا للقسمة وإلا فلا يقسمه."

(الکتاب العاشر؛الشرکات،الباب الثانی فی بیان القسمۃ،الفصل الثالثفی بیان قسمۃ الجمع،ص:۲۱۸،نور محمد کتب خانہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100310

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں