بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیم میراث


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال 1985ء  میں ہوا،  والد صاحب کے انتقال کے وقت ان کی ملکیت میں مندرجہ ذیل پراپرٹی تھی:225 اسکوائر فٹ کا ایک مکان، ایک دکان،  مکان کی مالیت آج مؤرخہ 29 اگست 2023ء  کو تین کروڑ سینتیس لاکھ پچاس ہزار روپے (33750000)  ہے،  اور دکان کی مالیت 3000000 اور یہ دکان پگڑی کی جگہ ہے ، والد کے وفات کے وقت مندرجہ لوگ حیات تھے والدہ ،تین بیٹے اور دو بیٹیاں،  آج مورخہ 29اگست 2023 جب کہ میراث تقسیم ہو رہی ان میں والدہ اور ایک بھائی انتقال فرما گئے ہے، تو شریعت اس معاملے میں کیا فرماتی ہے؟ آیا ان کو حصہ ملے گا؟ اور اگر ملے گا تو پھر کس طرح تقسیم ہوگا ؟ میرے بھائی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی، جن سے ان کے دو بیٹے ہیں ، تو میرے بھائی کا حصہ اگر ہے تو کس طرح تقسیم ہوگا؟ پہلے والدہ کا انتقال ہوا تھا،  پھر بھائی کا،کوئی فارمولا بنا کر دیں جو بھی قیمت فروخت وصول ہو مکان اور دوکان کی ہم اس سے ضرب دے کر تقسیم کرلیں، یہ قیمت فرضی ہے ۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں،پھر  اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے، پھر اگر مرحوم نے کوئی  جائز  وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی میں اسے نافذ کیا جائے، پھر اس کے بعد باقی تمام متروکہ جائیداد منقولہ و غیر منقولہ   کو 8 حصوں  میں تقسیم کرکے ہر  ایک زندہ بیٹے کو 2حصے اور ہر ایک بیٹی کو  ایک حصہ اور ہر پوتے کو  ایک حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے :

میت (والد ، والدہ ) 8 

بیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
22211
فوت شدہ    

 میت (بیٹا ) 2 مف2

بیٹابیٹا
11

فی صد کے اعتبار سے مرحومین کے ہر ایک زندہ بیٹے کو 25 فی صد ، ہر ایک بیٹی  کو12.5فی صد ، اور ہر ایک پوتے کو  12.5 فی صد ملے گا۔فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502100886

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں