بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، دو بیٹے اور چار بیٹیاں میں تقسیمِ ترکہ


سوال

میرے والد کا رضائے الہی سے  18 مارچ کو انتقال ہو گیا ہے، آپ سے درخواست ہے کہ ان کی مغفرت کی دعا کریں۔

مجھے ان کی میراث کے حوالے سے رہنمائی چاہیئے،  ان کے ورثاء میں میری والدہ ( مرحوم کی بیوہ) اور دو بیٹے اور چار بیٹیاں حیات ہیں، تین شادی شدہ اور ایک طلاق یافتہ ہے، جس کی کوئی اولاد نہیں۔

والد مرحوم کا ایک فلیٹ ہے، جس میں، میں اپنی اہلیہ اور بھائی اپنی اہلیہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اور ہماری والدہ اور طلاق یافتہ بہن بھی اسی میں رہتے ہیں،  میرے کمرے میں دولہن کا لایا سامان ہے اور بھائی کے کمرے میں بھابھی کا لایا ہوا سامان ہے،  والد صاحب کے استعمال کی چیزیں بھی ہیں،  اور بینک میں کچھ رقم رکھی ہے۔

والد صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ فلیٹ میری اس بیٹی کے نام ہے ، جو طلاق یافتہ ہے، مگر انہوں نے اس حوالے سے کوئی تحریر لکھی اور نہ کبھی کوئی انتظام کیا، بس زبانی کہا کرتے تھے۔

سوال یہ ہے کہ مذکورہ فلیٹ کس کا ہوگا؟ اس بیٹی کا یا میراث میں تقسیم ہوگا؟

اگر میراث میں تقسیم ہوگا تو طریقۂ کار بتادیں اور اگر مذکورہ بیٹی کا ہوگا تو کیا اس میں ہماری بیویوں کا لایا سب سامان بھی اس کا ہوگا یا نہیں؟

ہماری رہنمائی فرمادیں تاکہ اس کے مطابق ہم عمل کریں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے والد ساری زندگی اسی فلیٹ میں رہائش پذیر رہے، اور مذکورہ فلیٹ اپنی ہی ملکیت و تصرف میں رکھا تھا اور کبھی بھی مالکانہ تصرف و اختیار  کو ختم کرکے مالکانہ تصرف و اختیار کے  ساتھ اپنی مذکورہ بیٹی کے سپرد نہیں کیا تھا تو ان کے انتقال کے بعد  مرحوم کے یہ کہنے کی وجہ سے   شرعا بیٹی کی ملکیت قرار  نہیں پائے گا کہ یہ فلیٹ میری بیٹی کے نام ہے، بلکہ یہ مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوگا اور مرحوم کے شرعی ورثا میں شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا، تاہم اس گھر میں موجود سائل کی بیوی اور بھابھی کے جہیز کا سامان ان کی ذاتی ملکیت ہے، اس میں والد کے ورثا کا حق نہیں۔

لہذا مذکورہ فلیٹ اور تمام ترکہ کو   64حصوں میں تقسیم کرکے 8 حصے مرحوم کی بیوہ کو، 14 حصے مرحوم کے ہر  ایک بیٹے کو اور 7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

یعنی سو روپے میں سے  12.50بیوہ کو،21.87  روپے ہر ایک بیٹے کو اور  10.93 روپےہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں