بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بخاری شریف کے ختم کرانے کا شرعی حکم


سوال

 ہمارے شہر میں کچھ مال دار لوگ  علماء  کرام  کو بلا کر بخاری شریف کا قرآن ِ مجید کی طرح ختم کردیتے ہیں، کیا یہ کام جائز ہے؟ اور یہ کام بدعت  تو نہیں ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ  کسی بھی  خیر کے تذکرے کے بعد دعا قبول ہوتی ہے بالخصوص  پیغمبر ﷺ  اور  ان کی مبارک احادیث کے تذکرے کے بعد دعاکا مقبول ہونا  تجربات سے ثابت ہے، لہٰذا صورت ِ مسئولہ میں  کسی خاص مقصد کے لیے ضروری سمجھے بغیر محلے کے لوگوں کا علماء کو     بلاکر  بخاری شریف  کا  ختم کر انا جائز ہے، بدعت نہیں ہے۔

  چناں چہ  فقیہِ النفس حضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ   اس قسم کے ایک   سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

" قرونِ ثلاثہ میں  بخاری شریف  تالیف  نہیں  ہوئی تھی   مگر اس کا ختم درست ہے کہ ذکرِخیر کے بعد دعاقبول ہوتی ہے ، اس کا اصل شرع سے ثابت ہے ، بدعت نہیں ہے۔"

( تالفیاتِ رشیدیہ ، ص: 152، ط: ادارہ اسلامیات)

البحرالرائق میں ہے:

"وأما المبتدع فهو صاحب البدعة وهي كما في المغرب اسم من ابتدع الأمر إذا ابتدأه وأحدثه كالرفقة من الارتفاق والخلفة من الاختلاف ثم غلبت على ما هو زيادة في الدين أو نقصان منه اهـ.

وعرفها الشمني بأنها ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من علم أو عمل أو حال ‌بنوع ‌شبهة ‌واستحسان وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما ."

(ج:1، ص:370، ط: دارالکتاب الاسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں