بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تقلید سے متعلق سوالات


سوال

میرے کچھ سوالات ہیں :

  1:کیا ہر شخص کے لیے  تقلید شخصی لازم ہے؟

2: اگر لازم ہے تو کیوں لازم ہے؟

3: جیسا کہ ہم نے اپنے علمائے کرام سے سنا ہے کہ چاروں ائمہ مجتہدین حق پر ہیں۔ ہم کسی کی بھی تقلید کریں گے تو ہم فلاح پائیں گے، مگر ان کے مسلک میں بہت ہی زیادہ تضاد پایا جاتا ہے، جیسا کہ کہ اگر ہم مثال کے طور پر بات کریں امام اعظم امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایک ہی نشست میں اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے تو طلاق ہو جاتی ہے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے، جبکہ امام شافعی کے نزدیک ایک ایک مجلس میں کتنی ہی مرتبہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دی ان کے نزدیک ایک یہ ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے۔اس کے بعد بھی وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے وہ بیوی اس پر حرام نہیں ہوتی ہے۔اور اس طرح کے بہت زیادہ اختلافی مسائل موجود ہیں۔ ہم بات کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی شریعت محمدی لے کر آئے ہیں۔کیا یہ ایک ہی شریعت میں دو متضاد چیزیں نہیں ہیں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کامل اور مکمل شریعت ہے۔ہم یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سب کے سب ائمہ مجتہدین حق پر ہیں؟

4: کیا ایک مجتہد کے لئے بھی تقلید لازم ہے؟

5: امام ابن تیمیہ کے بارے میں علمائے دیوبند کی کیا رائے ہے؟

جواب

1.2۔واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں مسائلِ دینیہ حاصل کرنے کے تین طریقے تھے، ایک خود جناب رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی، دوسرا اجتہاد اور تیسرا تقلید، جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے قریب تھے یا ان کے لیے نبی کریم ﷺ سے ملاقات یا رابطہ آسان تھا تو وہ حضور ﷺ سے مسائل دریافت کرلیا کرتے تھے، لیکن جو لوگ حضور ﷺ سے ملاقات یا رابطہ نہیں رکھ سکتے تھے اور وہ حضرات اجتہاد کی صلاحیت رکھتے تھے تو وہ اجتہاد کرلیتے تھے، لیکن اگر ان میں اجتہاد کی صلاحیت اور ملکہ نہ ہوتاتو جو عالمِ دین مل جاتا اس سے تحقیق کرلیتے اور اس پر عمل پیرا ہوجاتے تھے۔

نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد دین حاصل کرنے کے دو ہی طریقے باقی رہ گئے ایک اجتہاد اور دوسرا تقلید، اللہ کے فضل و کرم سے اس امت میں کئی مجتہدین پیدا ہوئے، لیکن ابتدا میں کسی مجتہد کے مسائل منضبط اور مدون نہیں تھے، اس لیے کسی خاص مجہتد کے تمام مسائلِ اجتہادیہ کی اطلاع حاصل کرنا  اور اس پر عمل کرنا آسان نہیں تھا، لہذا جس کو جو مجتہد مل جاتا اس سے اپنی ضرورت کا مسئلہ دریافت کرکے اس  مسئلہ میں اس کی تقلید کرلیتا ، کسی خاص مجتہد کی تقلید کی پابندی نہ تھی، لوگوں کی طبیعتوں میں دین اور تقوی کے غلبہ کی وجہ سے اس کی ضرورت بھی نہ تھی، یہ سلسلہ دوسری صدی کے اخیر تک بلا کسی نکیر کے جاری رہا،جب دوسری صدی ہجری میں مجتہدینِ کرام کے اصول و فروع کی تدوین اور ترتیب کا سلسلہ شروع ہوا تو لوگوں میں ایک متعین مذہب کی تقلید کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن یہ سلسلہ موجودہ زمانہ میں مروج چار مذاہب تک محدود نہ تھا، بلکہ ان کے علاوہ بھی بہت سے مجتہدین کے ماننے والے پائے جاتے تھے، یہ سلسلہ چوتھی صدی ہجری تک جاری رہا، چوتھی  ہجری میں جب مذاہبِ اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) کی کتابیں مرتب اور مدون ہوکر تمام دنیا میں پھیل گئیں اور ان مذاہب پر عمل کرنا آسان ہوگیا اور ان کے علاوہ دیگر مجتہدینِ کرام کے مذاہب کے آثار رفتہ رفتہ مفقود ہوتے چلے گئے  اور اب کسی نئے اجتہاد کی ضرورت نہ رہی تو انہی چاروں مذاہب کے اندر تقلید شخصی کا انحصار ہوکر رہ گیا،اور لوگ ان چاروں اماموں کی تقلید کرنے لگے ۔

باقی تقلید شخصٰی ہر شخص کے لیے ضروری ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ  قرآن و سنت کے احکام دو قسم کے ہیں: پہلی قسم ان احکام کی ہے جن کو ہر عربی دان سمجھ سکتا ہے۔

دوسرے قسم میں وہ احکام ہیں جن کے مفہوم و معانی تک ہر کس و ناکس نہیں پہنچ سکتا، مثلًا اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: (طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین قروء تک روکے رکھیں گی)، لفظ "قروء"  حیض اور طہر دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اس آیت میں اس لفظ کا معنی کیا ہے؟ کوئی ایک معنی مراد لینے کی صورت میں کئی احکام میں تبدیلی واقع ہوگی، یہ تعیین مجتہد کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا، قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ  میں اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں، اسی طرح احادیثِ مبارکہ کے مجموعے میں بعض احادیث ظاہری طور پر ایک دوسرے کی مخالف اور متعارض ہیں، ان میں  تطبیق (جوڑ) یا ترجیح (ایک کو لے کر دوسرے کو دلیل کی بنا پرچھوڑ دینے) کی کیا صورت ہوگی؟ یہ کام بھی ہر ایک کے بس کا نہیں۔

لہذا تقلید مطلقاً واجب ہے ،  اور جس امام کی اتباع اپنے اوپر لازم کرلی جائے تو تمام مسائل میں اس کے مذہب کے مطابق عمل کیا جائے گا، ایک مسئلہ میں ایک مذہب اور دوسرے مسئلے میں دوسرے مذہب پر عمل کرنا خواہشاتِ نفسانی پر چلناہے، ایسا کرنا درست نہیں۔

3۔ائمہ اربعہ  کے برحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں ہر مجتہد اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کا مکلف ہے، چونکہ چاروں امام شرائطِ اجتہاد کے جامع تھے، اور انہوں نے انسانی طاقت کے مطابق حکم الٰہی کے پانے کی کوشش کی؛ اس لئے جس مجتہد کا اجتہاد جس نتیجہ تک پہنچا اس کے حق میں وہی حکمِ شرعی ہے، اور وہ من جانب اللہ اسی پر عمل کرنے کا مکلف ہے۔باقی آپ کا یہ کہنا کہ امام شافعی  تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرتے ہیں یہ  غلط ہے جمہور صحابہ ،تابعین، فقہاءکرام، محدثین اور ائمہ اربعہ کے نزدیک تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہے نہ کہ ایک۔

4۔مجتہد کی دو قسمیں ہیں :مجتہد فی المذہب ،مجتہد مطلق ،مجتہد فی المذہب وہ ہے جو استدلال واستنباط کے بنیادی اصولوں میں کسی مجتہد مطلق کے طریقے کے پابند ہوں لیکن ان اصول وقواعد کے تحت جزوی مسائل کو براہِ راست قرآن وسنت اور آثار صحابہ سے مستنبط کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں چانچہ ایسے حضرات مجتہد مطلق سے بہت  سے فروعی  احکام  میں اختلاف رکھتے ہیں ؛لیکن اصول کے لحاظ سے اس کے مقلد کہلاتے ہیں جیسے امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ ۔

مجتہد مطلق وہ ہے جس میں تمام شرائط اجتہاد پائی جائیں اوروہ اپنے علم وفہم کے ذریعے اصول ِاستدلال بھی خود قرآن وسنت سے وضع کرنے پر قادر ہوں اور ان اصول کے تحت تمام احکام کو قرآن سے مستنبط بھی کرسکتا ہوجیسے ائمہ اربعہ ،یہ حضرات اگرچہ اصول وفروع دونوں میں مجتہد ہیں لیکن ایک طرح کی تقلید ان کو بھی کرنی پڑتی ہے اور وہ اس طرح کہ جن مسائل میں قرآن کریم یا سنت میں کوئی تصریح نہیں ہوتی وہاں یہ حضرات اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنی قیاس اور رائے کے بجائے صحابہ وتابعین میں سے کسی کا قول یا فعل مل جائے تو یہ حضرات اس کی تقلید کرتے ہیں ۔

5۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  مسلک کے اعتبار سے حنبلی تھے ۔جن مسائل میں انہوں نے جمہور سے الگ رائے قائم کی ہے ،علماء کرام نے دلائل کے ساتھ ان کی تردید کی ہے،ایسے مسائل میں  ان کی اتباع نہیں کی جائے گی بلکہ جمہور کی رائے کو اختیار کیا جائے گا۔

عقد الجيد في احكام الاجتهاد والتقليد ميں هے :

"لأن الناس لم يزالوا من زمن الصحابة رضي الله عنهم إلى أن ظهرت المذاهب الأربعة يقلدون من اتفق من العلماء من غير نكير من أحد يعتبر إنكاره ولو كان ذلك باطلا لأنكروه"

(مقدمۃ،ص:۱۲،المطبعۃ السلفیہ)

الإنصاف فی بیان اسباب الإختلاف میں ہے :

"وبعد المئتين ظهر فيهم التمذهب للمجتهدين بأعيانهم وقل من كان لا يعتمد على مذهب مجتهد بعينه وكان هذا هو الواجب في ذلك الزمان."

(‌‌باب حكاية حال الناس قبل المائة الرابعة،ص:۷۰،دارالنفائس)

عقدا لجید فی احکام الاجتہاد والتقلید میں ہے :

"ولما اندرست ‌المذاهب ‌الحقة إلا هذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم والخروج عنها خروجا عن السواد الأعظم."

(ص:۱۳،المطبعۃ السلفیۃ)

تفسیر رازی میں ہے :

"إذا ثبت هذا فنقول: الآية دالة على أمور: أحدها: أن في أحكام الحوادث ما لا يعرف بالنص بل بالاستنباط.وثانيها: ‌أن ‌الاستنباط ‌حجة. وثالثها: أن العامي يجب عليه تقليد العلماء في أحكام الحوادث. ورابعها: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان مكلفا باستنباط الأحكام لأنه تعالى أمر بالرد إلى الرسول وإلى أولي الأمر."

(ج:۱۰،ص:۱۵۴،داراحیاء التراث العربی)

فتاوی شامی میں ہے :

"الثانية: ‌طبقة ‌المجتهدين ‌في ‌المذهب كأبي يوسف ومحمد وسائر أصحاب أبي حنيفة، القادرين على استخراج الأحكام من الأدلة على مقتضى القواعد التي قررها أستاذهم أبو حنيفة في الأحكام وإن خالفوه في بعض أحكام الفروع، لكن يقلدونه في قواعد الأصول، وبه يمتازون عن المعارضين في المذهب كالشافعي وغيره المخالفين له في الأحكام غير مقلدين له في الأصول."

(مقدمۃ،ج؛۱،ص:۷۷،سعید)

شرح النووی علی مسلم  میں ہے :

"وقد ‌اختلف ‌العلماء ‌فيمن ‌قال ‌لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث."

(باب طلاق الثلاث،ج:۱۰،ص:۷۰،داراحیاءالتراث العربی)

فتاوی الحدیثیۃ میں ہے :

"واعلم أنه خالف الناس في مسائل نبه عليها التاج السبكي وغيره. فمما خرق فيه الإجماع قوله في: علي الطلاق أنه لا يقع عليه بل عليه كفارة يمين، ولم يقل بالكفارة أحد من المسلمين قبله، وأن طلاق الحائض لا يقع، وكذا الطلاق في طهر جامع فيه، وأن الصلاة إذا تركت عمدا لا يجب قضاؤها، وأن الحائض يباح لها بالطواف بالبيت ولا كفارة عليها، وأن الطلاق الثلاث يرد إلى واحدة، وكان هو قبل ادعائه ذلك نقل أجماع المسلمين على خلافه، وأن المكوس حلال لمن أقطعها، وأنها إذا أخذت من التجار أجزأتهم عن الزكاة وإن لم تكن باسم الزكاة ولا رسمها، وأن المائعات لا تنجس بموت حيوان فيها كالفأرة، وأن الجنب يصلى تطوعه بالليل ولا يؤخره إلى أن يغتسل قبل الفجر، وإن كان بالبلد، وأن شرط الواقف غير معتبر، بل لو وقف على الشافعية صرف إلى الحنفية وبالعكس، وعلى القضاة صرف إلى الصوفية، في أمثال ذلك من مسائل الأصول مسألة الحسن والقبح التزم كل ما يرد عليها، وإن مخالف الإجماع لا يكفر ولا يفسق، وأن ربنا سبحانه وتعالى عما يقول الظالمون والجاحدون علوا كبيرا محل الحوادث تعالى الله عن ذلك وتقدس، وأنه مركب تفتقر ذاته افتقار الكل للجزء تعالى الله عن ذلك وتقدس، وأن القرآن محدث في ذات الله تعالى الله عن ذلك، وأن العالم قديم بالنوع، ولم يزل مع الله مخلوقا دائما فجعله موجبا بالذات لا فاعلا بالاختيار تعالى الله عن ذلك، وقوله بالجسمية والجهة والانتقال، وأنه بقدر العرش لا أصغر ولا أكبر تعالى الله عن هذا الافتراء الشنيع القبيح، والكفر البراح الصريح، وخذل متبعيه وشتت شمل معتقديه، وقال: إن النار تفنى، وأن الأنبياء غير معصومين، وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا جاه له ولا يتوسل به، وأن إنشاء السفر إليه بسبب الزيارة معصية لا تقصر الصلاة فيه، وسيحرم ذلك يوم الحاجة ماسة إلى شفاعته، وأن التوراة والإنجيل لم تبدل ألفاظهما وإنما بدلت معانيهما اه."

( الفتاوی الحدیثیۃ،ص:۸۵،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"وقال السبكي: ‌يحسن ‌التوسل بالنبي إلى ربه ولم ينكره أحد من السلف ولا الخلف إلا ابن تيمية فابتدع ما لم يقله عالم قبله اهـ."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج؛۶،ص:۳۹۷،سعید)

الدرر الكامنة ميں هے :

"ومن ثم نسب أصحابه إلى الغلو فيه، واقتضى له ذلك العجب بنفسه حتى زها على أبناء جنسه واستشعر أنه مجتهد فصار يرد على صغير العلماء وكبيرهم قويهم وحديثهم حتى انتهى إلى عمر فخطأه في شيء فبلغ الشيخ إبراهيم الرقي فأنكر عليه فذهب إليه واعتذر واستغفر وقال في حق علي: أخطأ في سبعة عشر شيئا ثم خالف فيها نص الكتاب منها اعتداد المتوفي عنها زوجها أطول الأجلين وكان لتعصبه لمذهب الحنابلة يقع في الأشاعرة حتى أنه سب الغزالي فقام عليه قوم كادوا  يقتلونه ولما قدم غازان بجيوش التتر إلى الشام خرج إليه وكلمه بكلام قوي فهم بقتله ثم نجا واشتهر أمره من يومئذ واتفق الشيخ نصر المنبجي كان قد تقدم في الدولة لاعتقاد بيبرس الجاشنكير فيه فبلغه أن ابن تيمية يقع في ابن العربي لأنه كان يعتقد أنه مستقيم وأن الذي ينسب إليه من الاتحاد أو الإلحاد من قصور فهم من ينكر عليه فأرسل ينكر عليه وكتب إليه كتابا طويلا ونسبه وأصحابه إلى الاتحاد الذي هو حقيقة الإلحاد فعظم ذلك عليهم وأعانه عليه قوم آخرون ضبطوا عليه كلمات في العقائد مغيرة وقعت منه في مواعيده وفتاويه فذكروا أنه ذكر حديث النزول فنزل عن المنبر درجتين فقال كنزولي هذا فنسب إلى التجسيم ورده على من توسل بالنبي صلى الله عليه وسلم أو استغاث فأشخص من دمشق في رمضان سنة خمس وسبعمائة فجرى عليه ما جرى وحبس مرارا فأقام على ذلك نحو أربع سنين أو أكثر وهو مع ذلك يشغل ويفتي إلى أن اتفق أن الشيخ نصرا قام على الشيخ كريم الدين الآملي شيخ خانقاه سعيد السعداء فأخرجه من الخانقاه وعلى شمس الدين الجزري فأخرجه من تدريس الشريفية فيقال أن الآملي دخل الخلوة بمصر أربعين يوما فلم يخرج حتى زالت دولة بيبرس وخمل ذكر نصر وأطلق ابن تيمية إلى الشام وافترق الناس فيه شيعا فمنهم من نسبه إلى التجسيم لما ذكر في العقيدة الحموية والواسطية وغيرهما من ذلك كقوله أن اليد والقدم والساق والوجه صفات حقيقية لله وأنه مستو على العرش بذاته فقيل له يلزم من ذلك التحيز والانقسام فقال أنا لا أسلم أن التحيز والانقسام من خواص الأجسام فألزم بأنه يقول بتحيز في ذات الله ومنهم من ينسبه إلى الزندقة لقوله أن النبي صلى الله عليه وسلم لا يستغاث به وأن في ذلك تنقيصا ومنعا من تعظيم النبي صلى الله عليه وسلم وكان أشد الناس عليه في ذلك النور البكري فإنه لما عقد له المجلس بسبب ذلك قال بعض الحاضرين يعزر فقال البكري لا معنى لهذا القول فإنه إن كان تنقيصا يقتل وإن لم يكن تنقيصا لا يعزر ومنهم من ينسبه إلى النفاق لقوله في علي ما تقدم ولقوله إنه كان مخذولا حيث ما توجه وأنه حاول الخلافة مرارا فلم ينلها وإنما قاتل للرئاسة لا للديانة ولقوله إنه كان يحب الرئاسة وأن عثمان كان يحب المال۔۔۔."

(الدرر الکامنۃ فی اعیان المائۃ الثامنۃ،ج:۱،ص:۱۸۱،دائرۃ المعارف اسلامیۃ)

مزید تفصیل کے لیے "تقلید کی شرعی حیثیت " مؤلفہ مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا مطالعہ فرمائیں ۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307101997

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں