بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تقلید کا حکم


سوال

میں بالغ ہوگیا ہوں، تو تقلید کس کی کروں؟

جواب

واضح رہے کہ   بالغ ہونے کے بعد  انسان شرعی احکامات  کا مکلّف ہوجاتا ہے، اور  مسلمان کے لیے  بالغ ہونے کے بعد  حضورِ اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  کی لائی شریعت پر عمل کرنا لازم ہے، اور  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر مکمل طور پر بسہولت عمل کرنے کے لیے چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کی تقلید  و پیروی کرنا شرعاً ضروری ہے؛ اس لیے کہ تکوینی طور پر اللہ رب العزت نے دین فہمی و نصوصِ شرعیہ سے استنباطِ مسائل کا جو ملکہ ان حضرات کو عطا کیا تھا وہ ان کے بعد  والوں میں سے کسی کو حاصل نہ ہوا، اور ان حضرات کے مذاہب و مسالک کو جو قبولیتِ عامہ حاصل ہوئی وہ کسی اور  مجتہد عالم کو حاصل نہ ہوئی،  یہی وجہ ہے کہ ان ائمہ فقہ کے مقلدین  میں بڑے بڑے محدثین کے نام ملتے ہیں جو احادیث سے مسائل استنباط کرنے میں اور ان پر  عمل کرنے میں ان چار ائمہ فقہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرتے تھے اور  ان حضرات فقہاءِ کرام کے مقلدین  ساری دنیا میں موجود ہیں اور تعلیمِ دین اور دین پر صحیح طریقہ پر عمل کرنے میں مصروف ہیں۔

نیز واضح رہے کہ تقلید صرف ان مسائل میں ہوتی ہے جو اجتہادی ہوں جن کا سمجھنا عوام کی سمجھ سے باہر ہو، اور  وہ مسائل جو منصوص ہیں جیسے نماز پڑھنا، ایمان لانا، حج کرنا، روزے رکھنا، یا جن کا حرام ہونا واضح ہے جیسے چوری، زنا، ڈکیتی وغیرہ ان مسائل میں تقلید کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ان میں کسی امام کی تقلید کی جاتی ہے۔ تقلید کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ کبھی مسئلہ اجمالی طور پر بیان ہوتا ہے، مگر اس کی تفصیل مطلوب ہوتی ہے، مجتہد ان صورتوں  میں امّت کے ان کے لیے راہِ عمل متعین کرتا ہے۔

لہذا اگر  سائل  ایسے علاقہ میں رہتا ہے  جہاں فقہ حنفی رائج ہے (مثلاً پاک وہند وغیرہ) تو اس پر فروعی مسائل میں  ”فقہ حنفی“ کی اتباع ضروری ہے، جیساکہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"إذا كان إنسان جاهل في بلاد الهند أو في بلاد ما وراء النهر و ليس هناك عالم شافعي و لا مالكي و لا حنبلي و لا كتاب من كتب هذه المذاهب وجب عليه أن يقلد لمذهب أبي حنيفة و يحرم عليه أن يخرج من مذهبه؛ لأنه حينئذ يخلع ربقة الشريعة و يبقى سدًى مهملًا."

(الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف للدهلوي (1 / 79)، باب حكاية حال الناس قبل المائة الرابعة...الخ، ط:دار النفائس - بيروت)

ترجمہ: ”جب کوئی ناواقف عامی انسان ہند وستان اور  ماوراء النہر کے شہروں میں ہو (کہ جہاں مذہب حنفی پر ہی زیادہ تر عمل ہوتا ہے) اور وہاں کوئی  شافعی، مالکی اور  حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب ہو تو اس وقت اس پر واجب ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کی تقلید کرے اور اس پر حرام ہے کہ حنفی مذہب کو ترک کردے؛ کیوں کہ اس صورت میں (مذہبِ حنفی کو ترک کرنا) شریعت کی رسی اپنی گردن سے نکال پھینکنا ہے اور مہمل وبے کار بن جانا ہے۔“

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307100709

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں