بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تقدیر کی تعریف و اقسام کا بیان، ’’رفعت الاقلام و جفت الصحف‘‘ کا معنیٰ


سوال

تقدیر کس کو کہتے ہیں؟  اور  "رفعتِ الأقلام و جفّت الصحف"  کے کیا معنی ہیں؟ بیان فرمائیں !

جواب

تقدیر لغت کے اعتبار سے ’’اندازہ‘‘ کرنے کو کہتے ہیں، جب کہ شرعی اصطلاح کے اعتبار سے تقدیر اللہ تعالیٰ کے اس علم اور فیصلہ کو کہتے ہیں جو اس کائنات اور اس کی تمام مخلوقات کے بارے میں اس کے وجود میں آنے سے پہلے طے کیا جاچکا ہے۔

تقدیر کی دو قسمیں ہیں:

1۔۔ تقدیر مبرم ۔

2۔۔ تقدیر معلق۔

پہلی قسم "تقدیر مبرم"  ہے، یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے، اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے۔ سوال میں ذکر کیے گئے حدیث کے الفاظ ’’رفعت الأقلام و جفّت الصحف‘‘ میں  اسی کی طرف اشارہ ہے کہ تقدیر  جس قلم سے لکھی گئی وہ قلم اُٹھالیے گئے اور صحیفوں پر جس سیاہی سے تقدیر کا فیصلہ لکھا جاچکا ہے وہ  سیاہی اور صحیفے  خشک ہوچکے ہیں، یعنی اب اس فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے۔

دوسری  قسم "قضائے معلق"   کی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے  یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کےنیک عمل  اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔

انسان دنیا میں جو کچھ بھی کرتا ہے یا کرے گا (خواہ اس کا تعلق تقدیرِ مبرم سے ہو یا تقدیرِ معلق سے) وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم اور تقدیر میں ہے، اللہ تعالیٰ سے مخفی کچھ بھی نہیں ہے، اور تقدیر سے مفرّ بھی نہیں ہے، لیکن انسان مجبور اور  بے بس بھی نہیں ہے، اس لیے کوشش اور اچھی تدبیراختیارکرنے کے ہم مکلف ہیں، اللہ تعالی نے اپنی مرضی سے انسان کو عمل کااختیار دیا ہے، اور اس اختیاری عمل کاوہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔

رہی یہ بات کہ انسان کی زندگی سے متعلق ہر ہر چیز کی تفصیل اور اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ لکھا ہوا ہے اور اس کی کیفیت کیا ہے؟ یہ ایک راز ہے، جس کی تہہ میں گھسنے کی کوشش خود کو تھکانے اور عاجز کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، ہم اس کے  مکلف   ہیں کہ ہم ایمان رکھیں کہ جو کچھ بھی خیر یا شر ہے وہ سب اللہ کے علم میں ہے، اور تقدیر سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور مسلسل اعمال اور اِصلاحِ اعمال میں لگے رہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ اندھیری راہ ہے، اس پر مت چلو، اس شخص نے دوبارہ سوال کیا تو فرمایا: گہرا سمندر ہے اس میں مت داخل ہو، اس نے سہ بارہ سوال کیا تو فرمایا: اللہ کا راز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تجھ سے مخفی رکھا ہے؛ لہٰذا اس کی تفتیش و جستجو میں مت پڑو۔

"و سأل رجل عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه فقال: أخبرني عن القدر؟ قال: طريق مظلم لاتسلكه، و أعاد السؤال فقال: بحر عميق لاتلجه، فأعاد السؤال فقال: سرّ الله قد خفي عليك فلاتفتشه". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (1 / 147)

حدیث میں ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے تقدیر کا ذکر فرمایا جس کا خلاصہ یہ  ہے کہ انسان کی تقدیر بالآخر اس پر غالب آتی ہے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: حضور ﷺ پھر عمل کی حاجت؟ پھر تو ہم تقدیر پر ہی بھروسہ اور تکیہ  نہ کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں، عمل کرتے رہو، کیوں کہ ہر ایک کے لیے وہ  (راستہ اور طریقہ) آسان کردیا جاتاہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہو۔ یعنی مسلسل نیک عمل کیے جاؤ، امید ہے کہ اسی حالت میں موت آجائے، اور جب خاتمہ بالخیر ہوگیا تو انسان کا بیڑا پار ہوگیا۔

سورۃ الرعد میں اللہ تعالیٰ نے  ارشاد فرمایا :

"يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِO "[الرعد : 13، 39]

ترجمہ: ’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وبا زدہ علاقوں کی طرف نہیں بڑھے، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کرنے اور اس بارے میں احادیثِ مبارکہ کا مذاکرہ کرنے کے بعد جلدی واپسی کا فیصلہ فرمایا، تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

"أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ الله"

ترجمہ: ’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں؟‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا:

"أفِرُّ مِنْ قَضَاء الله إلی قَدْرِ الله". 

ترجمہ: ’’میں اللہ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں۔‘‘ بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں : "نفر من قدر الله إلی قدر الله"

(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283)

اسی کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :

" لَايُرَدُّ الْقَضَاءَ إِلاَّ الدُّعَاءَ". (’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے‘‘ )

 (ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139)

جواموربھی انسان بجالاتاہے، یہ سب تقدیرِالہٰی کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن انسان   جمادات اور پتھروں کی مانند چوں کہ مجبور و بے بس نہیں، اس لیے کوشش اوراچھی تدبیراختیارکرنے کے ہم مکلف ہیں،بہرحال انسان کب کس وقت ، کس جگہ، کیا عمل کرے گا؟  یہ سب کچھ  اللہ تعالی کے علم میں ہے،  مگر انسان اس پر مجبور نہیں اور  کوشش کا وہ مکلف ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200839

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں