بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تقدیر کا فیصلے شب قدر کو ہوتے ہیں یا شب براءت کو؟


سوال

جامعہ کی ویب سائٹ پر فتویٰ نمبر 144208200780 میں لکھا ہے کہ شبِ براءت میں انسانوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں اٹھائے جانے اور ان کی زندگی، رزق اور موت سے متعلق فیصلوں کے احکامات کے صادر ہونے یا فرشتوں کے سپرد کرنے کا ذکر روایتوں میں موجود ہے اور ذیل میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک روایت بھی ذکر کی ہے ، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کی سورۃ الدخان کی آیت نمبر 3 اور 4 میں لکھا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: "کہ ہم نے اسے ایک مبارک رات میں اتارا ہے ، ( کیوں کہ ) ہم لوگوں کو خبردار کرنے والے تھے ،اسی رات میں ہر حکیمانہ معاملہ ہمارے حکم سے طے کیا جاتا ہے" ، جمہور مفسرین نے ان آیات کے متعلق لکھا ہے کہ یہ شبِ قدر کی بات ہے تو اس سے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں اٹھائے جانے اور ان کی زندگی، رزق اور موت سے متعلق فیصلوں کے احکامات فرشتوں کے سپرد کرنے کا کام شب قدر میں ہوتا ہے، نہ کہ شبِ براءت میں ، تو براہ کرم یہ وضاحت فرما دیں کہ آیا یہ کام شب ِقدر میں ہوتے ہیں یا شبِ براءت میں   ؟ اور قرآن کی آیت اور حدیث میں جو بظاہر تعارض ہے اسے بھی دور فرما دیں ۔ 

جواب

قرآن پاک میں ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِين،فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ.(الدخان:4.3) 

ہم نے اس کو ( لوح محفوظ سے آسمانی دنیا پر)ایک برکت والی رات ( یعنی شب قدر)  میں اتارا ہےہم آگاہ کرنے والے تھے،اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری پیشی سے حکم ہوکر طے کیا جاتا ہے۔(بیان  القرآن)

 اس آیت مبارکہ ’’لیلة مبارکة‘‘ سے مراد کون سی رات ہے؟ رئیس المفسرین حضرت  عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما اور قتادہ، مجاہد، حسن رحمھم اللہ    اورجمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ ’’لیلة مبارکة‘‘ سے مراد "شب ِقدر"ہے،یعنی وہ رات  جس میں نزولِ قرآن ہوا، جس میں مخلوقات کے متعلق تمام اہم اُمور کے فیصلے  طے اور مقرر کیے جاتے ہیں ، کہ کون اس سال میں پیدا ہو گا، کون  اس سال میں مرے گا، کس کو کس قدر رزق اس سال میں دیا جائے گا؟ وہ "شبِ قدر "  ہے ،بعض  روایاتِ حدیث میں شبِ براءت، یعنی شعبان کی پندرھویں شب کے متعلق بھی آیا ہے کہ اس میں آجال وارزاق کے فیصلے لکھے جاتے ہیں، اس لیے بعض حضرات  مثلاً  حضرت عکرمہ رحمہ اللہ وغیرہ نے آیتِ مذکورہ میں ’’لیلة مبارکة‘‘ کی تفسیر لیلة البراءة" سے کی ہے، مگر یہ قول مرجوح ہے، کیوں کہ یہ قول جمہور کے قول کے خلاف اور  ظاہری نصوص کے خلاف ہے، نیز مذکورہ روایت کے متعلق حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے، کہ یہ روایت مرسل ہے ،اور اس جیسی روایت صریح نصوص کا مقابلہ نہیں کرسکتی، البتہ بعض مفسرین نے قرآن اور احادیث  کے درمیان اس طرح تطبیق دی ہے کہ شبِ براءت میں اجمالی فیصلے ہوتے ہیں اور شبِ قدر میں تفصیلی احکام جاری ہوتے ہیں اور ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں۔ 

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے اس طرح تطبیق دی ہےکہ تجویز شبِ  براءت ميں اور  نفاذ   لیلة قدر   میں ہوتا ہے۔

خطبات حکیم الامت میں ہے:

مطلب یہ ہے کہ تجویز شبِ براءت میں ہوجاتی ہے اور نفاذلیلة القدرميں هوتا هے۔

(شب مبارك  ، ليلة البارك و ليلة القدر ، 377/7، ط: ادارۃ تالیفات اشرفیہ)

 بعض علمائے کرام نے اس   طور  پرتطبیق دی ہے کہ فیصلے شعبان کی پندرہوں شب میں ،اور اس کا نفاذ و تقسیم یعنی کارکن ملائکہ کو سپردگی، یہ شب قدر کو ہوتا ہے۔

تفسیر معارف القرآن میں ہے:

لیکن  روح المعانی میں ایک بلاسند روایت  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے اس مضمون کی نقل  کی  ہےکہ رزق  اور موت و حیات وغیرہ کے فیصلےنصف شعبان  کی رات میں لکھے جاتے ہیں،اور شب قدر میں فرشتوں کے  حوالے کئے جاتے اگر یہ روایت ثابت ہوتو دونوں قول میں تطبیق ہوسکتی ہے۔

( سورۃ الدخان، 758/6،ط:  مکتبہ  معارف القرآن،از مفتی شفیع عثمانی)

نظام الفتاوی میں ہے:

پھر یہ مراد ہے کہ فیصلہ تو ہوتا ہے ،شعبان کی پندرہوں شب میں اور اس کا نفاذ و فرق یعنی کارکن ملائکہ کو سپردگی، یہ شب قدر کو ہوتی ہےاور اس میں کوئی اشکال نہیں، کیوں کہ فیصلہ مستقل اور الگ چیز ہے،اور پھر اس کا نفاذ الگ اور مستقل چیز ہے،غرض دونوں الگ ا چیزیں ہے۔

( کتاب العقائد و الشرک، 58/1،  ط:ایفا پبلیکیشنز ،نئی دہلی)

بعض مفسرین نے اس طر ح تطبیق دی ہے،کہ شب براءت میں اس کام کی ابتداء اور شب قدر میں اس کی انتہاء ہوتی ہے۔

تفسیر عثمانی  میں ہے:

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شعبان کی پندرہوں رات ہےجسے شب براءت کہتے  ہیں، ممکن  ہےوہاں سے اس کام کا ابتداء اور شب قدر میں اس کی انتہاء ہوتی ہے۔

(سورۃ الدخان ،432/3، ط: دار الاشاعت)

 تفسیر ابن  کثیر میں ہے:

"عن الليث عن عقيل عن الزهري، أخبرني عثمان بن محمد بن المغيرة بن الأخنس قال:إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «تقطع الآجال من شعبان إلى شعبان حتى إن الرجل لينكح ويولد له وقد أخرج اسمه في الموتى»  فهو حديث مرسل ومثله لا يعارض به النصوص."

(سورة الدخان، 226/7، ط:دار الكتب العلمية)

روح  المعانی میں ہے:

"إنا أنزلناه أي الكتاب المبينالذي هو القرآن على القول المعول عليه في ليلة مباركة هي ليلة القدر على ما روي عن ابن عباس وقتادة وابن جبير ومجاهد، وابن زيد والحسن وعليه أكثر المفسرين والظواهر معهم، وقال عكرمة. وجماعة: هي ليلة النصف من شعبان. وتسمى ليلة الرحمة والليلة المباركة وليلة الصك وليلة البراءة."

"وروي عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما تقضى الأقضية كلها ليلة النصف من شعبان وتسلم إلى أربابها ليلة السابع والعشرين من شهر رمضان."

(سورة الدخان، 110،112/13، دار الكتب العلمية)

تفسیر  قرطبی میں ہے:

"والليلة المباركة ليلة القدر. ويقال: ليلة النصف من شعبان......قال ابن عباس: يحكم الله أمر الدنيا إلى قابل في ليلة القدر ما كان من حياة أو موت أو رزق. وقاله قتادة ومجاهد والحسن وغيرهم. وقيل: إلا الشقاء والسعادة فإنهما لا يتغيران، قاله ابن عمر. قال المهدوي: ومعنى هذا القول أمر الله عز وجل الملائكة بما يكون في ذلك العام ولم يزل ذلك في علمه عز وجل. وقال عكرمة: هي ليلة النصف من شعبان يبرم فيها أمر السنة وينسخ الأحياء من الأموات، ويكتب الحاج فلا يزاد فيهم أحد ولا ينقص منهم أحد......"

"وقال ابن عباس: يكتب من أم الكتاب في ليلة القدر ما يكون في السنة من موت وحياة ورزق ومطر حتى الحج، يقال: يحج فلان ويحج فلان. وقال في هذه الآية: إنك لترى الرجل يمشي في الأسواق وقد وقع اسمه في الموتى، وهذه الإبانة لأحكام السنة إنما هي للملائكة الموكلين بأسباب الخلق. وقد ذكرنا هذا المعنى آنفا. وقال القاضي أبو بكر بن العربي: وجمهور العلماء على أنها ليلة القدر. ومنهم من قال: إنها ليلة النصف من شعبان، وهو باطل لأن الله تعالى قال في كتابه الصادق القاطع:" شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن."

(سورة الدخان، 127.128/16، ط:دار الكتب المصرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں