بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تقدیر اور قسمت کی وضاحت


سوال

تقدیر اور قسمت کی وضاحت کریں؟

جواب

واضح رہے کہ  قسمت،نصیب اور بخت سب تقدیر کے معنی میں مستعمل ہیں۔

لغۃً تقدیر کا معنی ہے"اندازہ کرنا"اوراصطلاحِ شریعت میں "تقدیر " اللہ تعالیٰ کے اس علم اور فیصلہ  کوکہا جاتا ہے جس میں تمام تر مخلوقات کے متعلق واقعات و حوادثات   کی تفصیل ہوان کے وجود سے پہلے۔

تقدیر کی دو قسمیں ہیں:(1).  تقدیر مبرم ۔(2).  تقدیر معلق۔

 "تقدیرِ مبرم"   یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے، اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے۔

"تقدیرِ معلق"   اللہ تعالیٰ کی طرف سے  یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کےنیک عمل  اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔

انسان دنیا میں جو کچھ بھی کرتا ہے یا کرے گا (خواہ اس کا تعلق تقدیرِ مبرم سے ہو یا تقدیرِ معلق سے) وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم اور تقدیر میں ہے، اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں، اور تقدیر سے فرار بھی نہیں ہے، لیکن انسان مجبور  محض اور  بے بس ولا چار بھی نہیں ہے، اس وجہ سےہم اچھی تدبیر اور کوشش کرنے کے ہم مکلف ہیں، اللہ تعالی نے بندے کو عمل کااختیار دیا ہے، اور اس اختیاری عمل کاوہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے، نیز مسئلۂ تقدیربہت باریک اور نازک ہے، انسانی عقول اس لائق نہیں کہ اس باریکی اورحقیقت کوسمجھ سکیں،اسی وجہ سے اس میں غور و خوض سے منع کیا جاتا ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن طاوس؛ أنه قال:أدركت ناسا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولون: كل شيء بقدر. قال وسمعت عبد الله بن عمر يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "كل شيء بقدر. ‌حتى ‌العجز ‌والكيس. أو الكيس والعجز."

(كتاب القدر،  باب كل شيء بقدر، ج:4ص: 2045 ط: دار إحياء التراث العربي)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"قال الإمام أبو المظفر السمعاني: سبيل معرفة هذا الباب التوقيف من الكتاب والسنة، دون محض القياس ومجرد العقول. فمن عدل عن التوقيف فيه ضل وتاه في بحار الحيرة ولم يبلغ شفاء النفس، ولا يصل إلى ما يطمئن به القلب. لأن ‌القدر ‌سر ‌من ‌أسرار ‌الله تعالى التي ضربت من دونها الأستار. اختص الله به وحجبه عن عيون الخلق ومعارفهم، لما علمه من الحكمة. وواجبنا أن نقف حيث حد لنا ولا نتجاوزه. وقد طوى الله تعالى علم القدر عن العالم، فلم يعلمه نبي مرسل ولا ملك مقرب."

(كتاب القدر، باب كيفية خلق الآدمي في بطن أمه وكتابة رزقه، ج:16 ص: 196 ط: دار إحياء التراث العربي)

وفیہ ایضاً:

"واعلم أن ‌مذهب ‌أهل ‌الحق ‌إثبات ‌القدر ومعناه أن الله تبارك وتعالى قدر الأشياء في القدم وعلم سبحانه أنها ستقع في أوقات معلومة عنده سبحانه وتعالى وعلى صفات مخصوصة فهي تقع على حسب ما قدرها سبحانه وتعالى."

(كتاب الايمان، باب بيان الإيمان والإسلام والإحسان ووجوب الإيمان، ج:1 ص: 154 ط: دار إحياء التراث العربي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وسأل رجل علي بن أبي طالب رضي الله عنه فقال: أخبرني عن القدر؟ قال: طريق مظلم لا تسلكه، وأعاد السؤال فقال: ‌بحر ‌عميق لا تلجه، فأعاد السؤال فقال: سر الله قد خفي عليك فلا تفتشه، ولله در من قال:

تبارك من أجرى الأمور بحكمه … كما شاء لا ظلما أراد، ولا هضما

فما لك شيء غير ما الله شاءه … فإن شئت طب نفسا وإن شئت مت كظما"

(كتاب الايمان، باب الإيمان بالقدر، ج:1 ص: 147 ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں