بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 ذو القعدة 1446ھ 11 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا راہن کے وفات کے بعد مرہونہ چیز میں میراث جاری ہوگی؟


سوال

  تقسیمِ  وراثت میں راہن اور مر تہن کے  معاملہ      کاکیا حکم ہے؟

جواب

 راہن اور مرتہن میں کسی ایک کے فوت ہوجانے کے بعد بھی رہن کا معاملہ  بدستور اپنے حال پر باقی رہتا ہے،ختم نہیں ہوتا، اگر راہن کا انتقال ہوجائے تو  رہن کا معاملہ راہن کے ورثاء کی طرف منتقل ہوجائے گا ،اگر وہ اس  مرہونہ چیز( جس پر رہن کا معاملہ طے ہوا ہے)  کی قیمت ادا کردیں تو   مرتہن کو رہن میں رکھی ہوئی چیز واپس کرنی لازم  ہوگی،  مرہونہ شے اور  ورثاء کی ملکیت شمار ہوگی اس کے بعد اس ورثاء اس مرہونہ (رہن میں رکھی ہوئی  )چیز کو شرعی میراث کے قانون کے اعتبار سے تقسیم کریں گے۔

اور مرتہن کی وفات  سے یہ مرہونہ  چیز   اس کے  ورثاء کے پاس بطور رہن ہوگی ،مرتہن کے ورثاء  اس چیز کو اپنی ملکیت   سمجھ کر   آپس میں  تقسیم نہیں کر سکتے ہیں ،جب راہن یا اس کے ورثاء اس کی قیمت ادا کردیں  تو ان کو یہ چیز واپس کرنی ہوگی یا اگر ان کے پاس پیسے نہ ہوں   اور یہ چیز بیچنے  کی ضرورت پیش آئے،تو اپنے پیسوں کے برابر  پیسے رکھ کر باقی پیسوں کو راہن یا اس کے ورثاء کی طرف  لوٹادیں اور اگر  اس چیز  کی قیمت سے  رہن کے  پیسے پورے نہ ہورہے ہوں  تو   چیز بیچنے کے بعد جتنے  پیسے باقی رہتے ہوں   ،مرتہن یا اس کے ورثاء کو دینے ضروری ہوں گے ۔

تبیین الحقائقمیں ہے :

"لأن الرهن لا يبطل بموته،ولو بطل إنما كان يبطل لحق الورثة وحق المرتهن مقدم عليه كما يتقدم على حق الراهن."

(کتاب الرهن،‌‌باب الرهن يوضع على يد عدل،81/2،ط:دار الكتاب الإسلامی)

البحر الرائق  میں ہے :

"ولو مات أحد الراهنين فورثه الآخر فالرهن على حاله؛ لأن الوارث يقوم مقام الموروث في حقوقه وأملاكه.والرهن لا يبطل ‌بموت ‌الراهن ولا بموت المرتهن فيبقى الرهن على حاله."

(کتاب الرهن،ارتهن قلب فضة وزنه خمسون بكر سلم،288/8،ط:دار الكتاب الإسلامي)

تحفة الفقهاء میں ہے:

"وأما حكم الرهن فعندنا ملك العين في حق الحبس حتى يكون المرتهن أحق بإمساكه إلى وقت إيفاء الدين."

(‌‌كتاب الرهن،42/3،ط:العلمية، بيروت)

بدائع الصنائع   میں ہے :

"إن كان في الثمن وفاء بالدين، وإن كان فيه فضل، رده على الراهن، وإن كان أنقص من الدين،يرجع المرتهن بفضل الدين على الراهن."(‌‌كتاب الرهن،فصل في حكم الرهن،153/6،ط:العلمية، بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601102675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں