ہمارے کچھ دوکاندار حضرات لوگوں سے پیسے لے کر اپنی دوکان میں انویسٹ کرتے ہیں اور معمول کے اندازے کے حساب سے جتنا ماہانہ پرافٹ دوکاندار کے ذہن میں ہوتا ہے اسی حساب سے پہلے ہی منافعہ طے کرتے ہیں یا منافعے کی چیک دیتے ہیں، دوکانداروں کا کہنا کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اتنی انویسٹ میں اتنا منافع متوقع ہے اسی لیے پہلے ہی ماہانہ منافع فکس کرتے ہیں، باقی ان کے مطابق کمی بیشی ان کا نصیب ہوتا ہے۔ اس طرح کا کاروباری عمل جائز ہے؟
صورت مسئولہ میں دوکانداروں کا لوگوں سے سرمایہ اس شرط پر لینا کہ وہ ماہانہ متعین نفع (جس کے پیشگی چیک بھی دوکان دار بنا کردے دیتا ہے)سرمایہ لگانے والوں کو دیں گے شرعا جائز نہیں ہے، یہ سودی معاملہ ہے اور منافع سود کے حکم میں ہوں گے۔
الفتاوى الهندية میں ہے:
«وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة، كذا في البدائع.»
(کتاب الشرکت ج نمبر ۲ ص نمبر ۳۰۲،دار الفکر)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"(وأما) الشركة الفاسدة وهي التي فاتها شرط من شرائط الصحة، فلا تفيد شيئا مما ذكرنا؛ لأن لأحد الشريكين أن يعمله بالشركة الصحيحة، والربح فيها على قدر المالين؛ لأنه لا يجوز أن يكون الاستحقاق فيها بالشرط؛ لأن الشرط لم يصح، فألحق بالعدم، فبقي الاستحقاق بالمال، فيقدر بقدر المال، ولا أجر لأحدهما على صاحبه عندنا."
(کتاب الشرکۃ ج نمبر ۶ ص نمبر ۷۷ ،دار الکتب العلمیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508102371
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن