ذکر و اذکار میں تکرار کیوں ہے؟مطلب مسلسل ایک ہی کام کو کرنے میں ایسا ہوتا ہے بسا اوقات انسان صرف زبان ہلا رہا ہوتا ہے تو اس سے اجر و ثواب پر فرق پڑتا ہے، کیوں کہ یہ اختیاری تو نہیں ہے، باوجود کوشش کے بھی ہم اکثر بھول جاتے ہیں،ایسا کرنے میں کوئی حکمت ہے تو بتا دیں۔
وضاحت:
جیسے 34 بار اللہ اکبر، 33 بار سبحان اللہ ، اور 33 بار الحمدللہ ہم رات میں پڑھتے ہیں، اور بھی مختلف اذکار ہوتے ہیں جن کو مسلسل پڑھنا پڑتا ہے، تو میرا سوال یہ ہے کہ جب ہم مسلسل کوئی چیز کرنے یا پڑھنے کے عادی ہو جاتے ہیں تو پھر اس میں وہ توجہ باقی نہیں رہتی چاہے ہم کوشش بھی کریں تو پھر ذکر میں تکرار کی کیا حکمت ہے؟
واضح رہے کہ احکا م شرعیہ میں کہیں اعداد اورگنتی کا ذکر ہوا ہے،جیسے حدیث میں ہے کہ بلی برتن میں منہ ڈالے تو تین بار دھویا جائے ، یا کُتا برتن میں منہ ڈالے تو سات بار دھونے کا حکم ہے ، اسی طرح ذکر واذکا میں بھی ہے، مثلا فرض نمازوں کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ ، دس مرتبہ الحمد للہ ، اور دس مرتبہ اللہ اکبر کہنا، ایک اور روایت میں فرض نمازوں کے بعدیا سونے سے پہلے 33 بار سبحان اللہ ، 33 بار الحمد للہ ، اور 34 بار اللہ اکبر پڑھنے کا حکم ہے، اصل وجہ یہ ہے کہ شریعت نے جو بھی عدد مقر کیا ہے اس میں ضرور کوئی حکمت اور مصلحت ہوتی ہے ، مقدار کے وقت دو باتیں پیش نظر رکھنا حکیم کے فعل کے مناسب ہے: ایک مکلّفین کے احوال کہ ان کے لیے کتنی مقدار مناسب ہے، دوسری یہ کہ تنظیمِ ملت کے لیے کون سا عدد مناسب ہے ۔
اس کے علاوہ اور بھی حکمتیں ہے جو مختلف اصول کے تحت آتے ہیں ، ذکر واذکارسے متعلق اصل یہ ہے کہ :طاق عدد کی رعایت رہے، کیوں کہ یہ ایک مبارک عدد ہے، اس پر دلیل نقلی یہ حدیث ہے کہ : اللہ تعالی وتر (یکتا) ہیں (ذات میں بھی ، صفات میں بھی ، اور افعال میں بھی) اور طاق عدد کو پسند کرتے ہیں (یعنی عامل سے اس کو قبول فرماتے ہیں اور اس پر ثواب دیتے ہیں)۔
دلیل عقلی یہ ہے کہ:حقیقی معنوں میں یکتا اور طاق "ایک عدد " ہے ، اس کے بعدوہ عدد طاق شمار ہوگا جو ایک عدد کے زیادہ قریب ہو جیسے 3 اور 4 میں 3 کا عدد ایک کے زیادہ قریب ہے، کیوں کہ یہ بھی ایک کی طرح طاق ہے پس ہر طاق عدد مبارک ہے، اور اللہ تعالی کو پسند ہے۔
لہذا جن اذکار کے متعلق نصوص میں کوئی خاص عدد وارد ہوا ہے اس پر عمل کیا جائے، اگرچہ حکمتیں سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں۔
فتح الباری میں ہے:
"واستنبط من هذا أن مراعاة العدد المخصوص في الأذكار معتبرة وإلا لكان يمكن أن يقال لهم أضيفوا لها التهليل ثلاثا وثلاثين وقد كان بعض العلماء يقول إن الأعداد الواردة كالذكر عقب الصلوات إذا رتب عليها ثواب مخصوص فزاد الآتي بها على العدد المذكور لا يحصل له ذلك الثواب المخصوص لاحتمال أن يكون لتلك الأعداد حكمة وخاصية تفوت بمجاوزة ذلك العدد".
(باب الذكر بعد الصلاة، ج 2، ص330، ط: دار المعرفة)
فتاوی شامی میں ہے:
"لو زاد على العدد، قيل يكره لأنه سوء أدب، وأيد بأنه كدواء زيد على قانونه أو مفتاح زيد على أسنانه، وقيل لا بل يحصل له الثواب المخصوص مع الزيادة، بل قيل لا يحل اعتقاد الكراهة، لقوله تعالى - {من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها} والأوجه إن زاد لنحو شك عذر أو لتعبد فلا لاستدراكه على الشارع وهو ممنوع".
(كتاب الصلاة، مطلب فيما لو زاد على العدد الوارد في التسبيح عقب الصلاة، ج1، ص531، ط: ایچ ایم سعید)
حجۃ اللہ البالغہ میں ہے:
"اعلم أن الشرع لم يخص عددا ولا مقدارا دون نظيره إلا لحكم ومصالح، وإن كان الاعتماد الكلي على الحدس المعتمد على معرفة حال المكلفين وما يليق بهم عند سياستهم، وهذه الحكم والمصالح ترجع إلى أصول: الأول أن الوتر عدد مبارك لا يجاوز عنه ما كان فيه كفاية، وهو قوله صلى الله عليه وسلم: "إن الله وتر يحب الوتر، فأوتروا يا أهل القرآن" وسره أنه ما من كثرة إلا مبدؤها وحدة، وأقرب الكثرات من الواحدة ما كان وترا؛ إذ كل مرتبة من العدد فيها وحدة غير حقيقة بها تصير تلك المرتبة، فالعشرة مثلا وحدات مجتمعة اعتبرت واحدا لا خمسة وخمسة، وعلى هذا القياس".
(باب أسرار الأعداد والمقادير، ج1، ص188، دار الكتب العلمهة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144508100843
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن