بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان کے اول کے بعد نوکری سے چھٹی لینا


سوال

آپ کے فتوی نمبر 144507100642 میں لکھا ہے کہ اگر محلہ کی مسجد میں 1:50 پر پہلی آذان ہوتی ہو تو 1:50 سے جمعہ کی نماز کی چھٹی آفس سے لینا جائز ہے چاہے ظہر کا ٹائم 1:10 پر شروع ہوئے۔ لیکن جس مسجد میں 1:50 پر پہلی آذان ہوتی ہو اگر وہ میٹرو بس کے راستے کے حساب سے آفس سے قریب ہو اور وہ محلہ کی مسجد نہ ہو تو بھی 1:50 سے چھٹی لینا جائز ہوگا؟

تنقیح:

۱) سائل کا آفس جس جگہ پر ہے وہاں کی مسجد میں پہلی اذان کتنے بجے ہوتی ہے؟

۲) میٹرو بس کے حساب سے قریب مسجد  سے سائل کی کیا مراد ہے اس کو واضح کرے۔

جواب تنقیح:

میری جاب ختم ہو گئی ہے۔ میں نے اس لیے پوچھا کہ بعد میں میری جہاں جاب لگے وہ آفس ہو سکتا ہے کہ وہاں سے مسجد میٹرو بس کے راستے کے حساب سے جو قریب ہو وہ گاڑی کے راستے کے حساب سے سب سے قریب نہ ہو۔ کیونکہ میٹرو بس کا اپنا روٹ ہوتا ہے۔ اور میرے پاس گاڑی کا لائسنس نہیں تو میں میٹرو بس استعمال کرتا ہوں۔ تو میں نے اس مسجد کی پہلی آذان سے چھٹی لینی ضروری ہوگی جو میٹرو بس کے روٹ کےحساب سے سب سے قریب ہو یا گاڑی کے راستےکے حساب سےسب سےقریب ہو؟ 2۔ یہاں پر مصلے بھی بنے ہوئے ہیں جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہے۔ اگر کوئی مصلیٰ جہاں صرف جمعہ کی نماز ہوتی ہو یا پانچوں نمازیں ہوتی ہوں وہ آفس سے زیادہ قریب ہو تو اس مصلی ٰکی پہلی آذان معتبر ہو گی چھٹی کے لیے اگر میں وہاں جمعہ پڑھنے جاؤں؟

جواب

سائل کی جس جگہ جاب لگے ، وہاں جو قریبی مسجد ہو سائل کےحق میں  اس کی پہلی اذان کا اعتبار ہوگا۔ آفس کی قریبی مسجد میں جب اذان ہوجائے سائل اس وقت چھٹی لے لے ۔نیز اگر قریب میں کوئی مسجد نہیں ہے اور کسی سواری میں ہی جانا پڑتا ہے تو پھر چونکہ  سائل میٹرو بس استعمال کرتا ہے تو سائل کے حق میں میٹرو بس کے حساب سے جو قریبی مسجد ہوگی اس کا اعتبار ہوگا۔

احسن الفتاوی میں ہے:

"اس سے متعلق کوئی صریح جزئیہ اس لیے نہیں ملتا کہ پہلے زمانے میں پورے شہر میں صرف ایک ہی جگہ جمعہ ہوتا تھا، لہذا اس کو عام نمازوں کی اذان پر قیاس کیا جائے گا، عام اذان کی اجابت باللسان میں اذان اول کا اعتبار ہے اور اجابت بالقدم میں اذان محلہ کا اعتبار ہے ، اس سے ثابت ہوا کہ وجوب سعی الی الجمعہ و کراہت بیع  میں مسجد محلہ کی اذان معتبر ہے۔"

(کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج نمبر ۴، ص نمبر ۱۲۸، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101450

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں