بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچی کے نام رکھے ہوئے سونے کے استعمال کا حکم


سوال

میرے بھائی نے اپنی دو سال کی نابالغہ بچی کے لیے سونا رکھا ہوا ہے اس کے نام سے، اب اس پر تو زکوۃ نہیں ہے اور اس زیور کو اس کے ماں باپ کے لیے استعمال کرنا بھی جائز نہیں، اب اگر وہ استعمال کر لیتے ہیں کسی مجبوری کی وجہ سے تو کیا اس کی زکوۃ دینی ہوگی یا نہیں،کیا وہ اس پر گناہگار ہونگے، اگر دینی ہوگی تو پچھلے سالوں کی بھی دینی ہوگی یا صرف اسی سال کی جس سال خرچ کیے، اس بارے میں تفصیل سے راہنمائی درکار ہے۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں والد کا اپنی نابالغہ  بچی کے نام  سونا کردینے سے  سونا بچی کی ملکیت ہوچکاہے، بچی کی ملکیت ثابت ہونے کے بعد والدین کے لیے اپنی بچی کے زیور کو استعمال کرنا (پہننا یا بیچنا)جائز  نہیں تھا،اب اگر والدین نے بچی کا سونا صرف پہنا ہو تو والدین کو چاہیے کہ وہ دوبارہ استعمال نہ کریں ،اور اگر انھوں نے بچی کے سونے کو بیچ دیا ہے تو سونا بیچنے کا یہ معاملہ درست نہیں تھا،والدین کے اوپر لازم ہے کہ اتنا ہی سونا خرید کر اس نابالغہ بچی کے لیے امانت کے طور پر رکھ دیں ،اور  آئندہ والدین  بچی کے سونے کو استعمال کرنے اور خرچ کرنے سے بچیں،تاہم  بچی جب تک نابالغہ ہے،  اس کے سونے کی زکوۃ دینا نہ بچی پر واجب ہے اور نہ ہی  اس کے والدین پر،،نہ اس سال کی ،اور نہ ہی گزشتہ سالوں کی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهبة الأب لطفله تتم بالعقد.... وكذا لو وهبته أمه وهو في يدها والأب ميت وليس له وصي، وكذا كل من يعوله، كذا في التبيين وهكذا في الكافي".

(کتاب الہبہ، الباب السادس، ج:4، ص:391، ط: رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود،ج:4،ص:61،ط:سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"ومنها شرط النفاذ وهو الملك والولاية، حتى إذا باع ملك غيره ‌توقف النفاذ على الإجازة ممن له الولاية."

(کتاب البیوع،ج6،ص248،ط؛دار الفکر)

التجرید للقدوری میں ہے:

"وأما ‌الصبي فليس من أهل ‌الولاية."

(كتاب الوصايا، 8/ 4032، ط: دار السلام - القاهرة)

وفيها أيضا:

"(7/ 3371):قالوا: التعدي على مال الغير إذا طرأ؛ يخرجه من أن يكون مملوكا [لم يزل ملك صاحبه عنه أصله ما تقدم].

16499 - قلنا: [التعدي على مال الغير] لم يزل الملك عندنا، وإنما صار سببا في الإزالة إذا حدث عن التعدي معنى من المعاني، وهذا يزيل الملك."

(کتاب الغصب، ج:7، ص:3371، ط: دار السلام - القاهرة)

شرح المجلہ لسلیم رستم باز میں ہے:

"الوديعة أمانة في يد المودَع، فإذا هلكت بلا تعد منه و بدون صنعه و تقصيره في الحفظ لا يضمن، ولكن إذا كان الإيداع بأجرة فهلكت أو ضاعت بسبب يمكن التحرز عنه لزم المستودع ضمانها".

( أحكام الوديعہ، رقم المادۃ:777، ج:1، ص:342، ط:مكتبہ رشيديہ)

ہندیہ میں ہے:

"(ومنها العقل والبلوغ) فليس الزكاة على صبي".

(کتاب الزکات،الباب الاول، ج:1، ص:172، ط: رشیدیہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها البلوغ عندنا فلا تجب على الصبي وهو قول علي وابن عباس فإنهما قالا: " لا تجب الزكاة على الصبي حتى تجب عليه الصلاة ".....ومن أصحابنا من بنى المسألة على أصل وهو أن الزكاة عبادة عندنا، والصبي ليس من أهل وجوب العبادة فلا تجب عليه كما لا يجب عليه الصوم والصلاة."

(کتاب الزکات، فصل الشرائط التی ترجع الی المال، ج:2، ص:14، ط: دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101922

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں