بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

B love network سے پیسے کمانے کا حکم


سوال

آج کل ایک ایپ آیا ہے جس کا نام (بی ۔لو نیٹورک) B۔love network ہے اور اس میں ہمیں بتایا جاتا ہے کے روز ایک کلک پر اپ ایک بونس حاصل کرے یعنی ایک کریپٹو کرنسی  یا بٹ کوئین، جو بعد میں دو یا تین ڈالر کا ہو جائے گا اور آپ یہ کوئن بیچ کے پیسے کما سکتے ہے یعنی اس میں ہمیں بغیر انویسٹمنٹ کے بونس دیا جا رہا ہے اور یہ  کوئین بیچ کے مفت میں ڈالر بھی کمائے جانے کا بھی کہا گیا ہے، تو برائے مہربانی اپ بتا دے کے بغیر انویسٹمنٹ کیے اسکا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

بی لو ( b-love)  کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق بی لو سے کمائی کا بنیادی طریقہ  کرپٹو کرنسی سٹیکنگ ہے۔سٹیکنگ کرپٹو کرنسی اور بلاک چین سے متعلق ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص متعلقہ  کرپٹو کرنسی نیٹ ورک میں کچھ کرپٹو کرنسی کی شکل میں سرمایہ لگاتا ہےاور اس سرمایہ لگانے کی بناء پر وہ بلاک چین پر ہونے والی ٹرانزیکشن کی تصدیق یا تکذیب کرسکتا ہے اور اس عمل پر اس کو عوض ملتا ہے۔

پس جب مذکورہ ایپ میں کمائی کرپٹو کرنسی کی لین دین کے ذریعہ ہی ہوتی ہے اور کرپٹو کرنسی ایک فرضی کرنسی ہے ،اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں تو پھر اس ایپ کے ذریعہ پیسے کمانا بھی جائز نہیں ہے۔

B-Love Network App is a Crypto Staking Platform To Earn Rewards (blove.network))

تفسیر بغوی میں ہے :

"قوله تعالى: يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل يعني بالحرام، ‌بالربا ‌والقمار والغصب والسرقة والخيانة ونحوها، وقيل: هو العقود الفاسدة إلا أن تكون تجارة."

(ج:1،ص:602،ط: داراحیاء التراث العربی)

حدیثِ مبارک  میں ہے :

"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أيُّ الكسب أطيب؟قال: "عمل الرجل بيده، وكلّ بيعٍ مبرورٍ."

(شعب الایمان، باب التوکل باللہ عزوجل، ج: 2، ص: 434، ط: مکتبة الرشد)

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن  میں ہے:

" قوله: (مبرور) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به."

(باب الكسب وطلب الحلال، ‌‌كتاب البيوع، ج: 7، ص: 2112، ط:مكتبة نزار مصطفى الباز)

مسند أحمد میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود،، عن أبيه، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة."

(‌‌مسند المكثرين من الصحابة، ‌‌مسند عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه رقم الحديث: 3783، ج: 6، ص: 324، ط: موسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌والأجرة ‌إنما ‌تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل."

(باب المہر، ج: 3، ص: 156، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والإباحة، باب الإستبراء، فصل في البيع، ج:6، ص:403، ط: سعيد)

البنایہ شرح الہدایۃ میں ہے:

"وقد نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الملامسة والمنابذة. ولأن فيه تعليقا بالخطر."

شرح:

م: (تعليقًا) ش: أيتعليق التمليكم: (بالخطر) ش: وفي " المغرب "، الخطر: الإشراف على الهلاك، قالت الشراح: وفيه معنى القمار؛ لأن التمليك لايحتمل التعليق لإفضائه إلى معنى القمار".

 (کتاب  البیوع،  باب  البیع  الفاسد، ج:8، ص:158، ط: دار الكتب العلمية)

الموسوعة الفقهية الكويتيةمیں ہے:

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لا يستحق به أجرة . ولا يجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً ؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولا يجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها ، ولا على حمل الخنزير."

 (‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌إجارة، الفصل السابع، الفرع الثالث، المطلب الأول، الإجارة على المعاصي والطاعات، ج: 1، ص: 290، ط: طبع الوزارة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،» ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه."

(کتاب البیوع، ج:  ۴، ص: ۵۰۱، ط: سعید)

تجارت کے مسائل کاانسائیکلوپیڈیا میں ہے :

’’بٹ کوائن‘‘  محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ  زمانے میں   " کوئن" یا   "ڈیجیٹل کرنسی"  کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے   " بٹ کوائن" یا کسی بھی   " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔‘‘

 (حرف: ب، ج: 2، ص: 92، ط: بیت العمار)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408102678

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں