بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادارے سے تنخواہ لیتے ہوئے دوسرے شخص سے تنخواہ لینے کا حکم


سوال

اگر ایک بندہ کسی ادارے کے ساتھ منسلک ہو اور وہ ادارہ اسکو ماہانہ وظیفہ دیتا ہو لیکن اگر اس بندے کو ادارے سے باہر کوئی اور تنخواہ وغیرہ دیتا ہو تو یہ تنخواہ لینا اور استعمال کرنا کیسا ہے ؟ تھوڑا سا وضاحت چاہئے۔

جواب

واضح رہے کہ اگر دوسرا شخص سائل کو  بغیر کسی کام کے بدلے تنخواہ دیتا ہے،یا کسی کام کے عوض تنخواہ دیتا ہے لیکن وہ کام ادارے کے ڈیوٹی کے اوقات کے علاوہ میں سائل انجام دیتا ہے تو سائل کا ادارے سے وظیفہ لینے کے ساتھ ساتھ دوسرے شخص سے بھی تنخواہ لینا  جائز  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى ... وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.

(قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(کتاب الإجارہ باب ضمان الأجیر مطلب: فی أجیر خاص ج نمبر:6 ص:170 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں