بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حیات النبی کے منکرین اہلِ سنت والجماعت میں داخل ہے؟


سوال

کیا  حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین  کا اہلِ سنت والجماعت سے کوئی تعلق ہے،  اور کیا ان میں رشتہ کر سکتے ہیں کہ نہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر  کوئی شخص،  اہلِ سنت والجماعت کے مسلمہ بدیہی عقیدہ کے  مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ کی قبر  مبارک میں حیات کا انکار  کرتا ہےتو  یہ اجماعی عقیدے کا انکار ہے، جس کی بنا  پر ایسے نظریات  کے حامل افراد اہلِ سنت والجماعت سے خارج  ہیں، کیوں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے بارے میں اہلِ سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ  ﷺ کی حیات، حیاتِ دنیوی کی سی ہے بلامکلف ہونے کے، اور یہ حیات مخصوص ہے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ، یہ حیات ِخالص برزخی حیات نہیں جو تمام ایمان داروں، بلکہ تمام انسانوں کو حاصل ہے، لہذا ایسے نظریات کے معتقدین سےرشتہ نہیں کرنا چاہیے۔

المہند علی المفند (معروف بہ عقائدِ اہلِ سنت والجماعت) میں ہے:

"السوال الخامس: ما قولكم فى حيواة النبي عليه الصلوة والسلام في قبره الشريف، هل ذلك أمر مخصوص به أم مثل سائر المؤمنين رحمة الله عليهم حيواة برزخية .

الجواب : عندنا وعند مشائخنا حياة حضرة الرسالة صلى الله عليه وسلم حي في قبره الشريف وحيوته صلى الله عليه وسلم دنيوية من غير تكليف وهي مختصة به صلى الله عليه وسلم وبجميع الأنبياء صلوات الله عليهم والشهداء لابرزخية كماهي حاصلة لسائر المؤمنين بل لجميع الناس كما نص عليه العلامة السيوطي في رسالته أنباه الاذكياء بحيوة الانبياء حيث قال: قال الشيخ تقي الدين السبكي حيواة الأنبياء والشهداء فى القبر كحياتهم في الدنيا ويشهد له صلواة موسى عليه السلام في قبره فان الصلواة تستدعى جسداً حياً إلى آخر ماقال. فثبت بهذا أن حيواته دنيوية برزخية لكونها في عالم البرزخ. ولشيخنا شمس الاسلام والدين محمد قاسم العلوم على المستفيدين قدس الله سره العزيز فى هذا المبحث رسالة مستقلة دقيقة المأخذ بديعة المسلك لم يُر مثلها قد طبعت وشاعت في الناس واسمها ”آب حيات أى ماء الحياة...."

(السوال الخامس، ص:21/22، ط: دارالاشاعت)

جواہر الفتاوی میں ہے:

"حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا عقیدہ نصوصِ شرعیہ سے اور اجماعِ امت سے ثابت ہے، باتفاق علماءِ اہل السنۃ والجماعۃ خاص کر اکابرینِ علماءِ دیوبند، اس جماعتِ دیوبندیہ کے لیے معیار قرار دیتے ہیں، اس کے خلاف منکرینِ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم و الانبیاء والشہداء کو مبتدع اور اہلِ سنت و الجماعت سے خارج قرار دیتے ہیں۔"

(جواہر الفتاوٰی جدید، ج:1، ص:432، ط:اسلامی کتب خانہ)

حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي میں ہے:

"أن الله جل ثناؤه رد إلى الأنبياء عليهم السلام أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء."

(بیان قول اللنبی صلی اللہ علیہ وسلم «لا تفضلوا بين أنبياء الله تعالی، ص:110، ط:مکتبۃ العلوم والحکم)

شرح الشفا لملّا علی القاری میں ہے:

"(عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رسول الله صلى الله تعالى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أردّ عليه) أي على من سلم علي (السّلام) مفعول أرد والحديث رواه أبو داود وأحمد والبيهقي وسنده حسن وظاهره الإطلاق الشامل لكل مكان وزمان ومن خص الرد بوقت الزيارة فعليه البيان والمعنى أن الله سبحانه يرد روحه الشريف عن استغراقه المنيف ليرد على مسلمه جبرا لخاطره الضعيف وإلا فمن المعتقد المعتمد أنه صلى الله تعالى عليه وسلم حي في قبره كسائر الأنبياء في قبورهم وهم أحياء عند ربهم وأن لأرواحهم تعلقا بالعالم العلوي والسلفي كما كانوا في الحال الدنيوي فهم بحسب القلب عرشيون وباعتبار القالب فرشيون".

(الباب الرابع فی حکم الصلوۃ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم، فصل :في تخصيصه عليه الصلاة والسلام بتبليغ صلاة من صلى عليه صلاة أو سلم من الأنام، ج:2، ص:143، ط:دارالکتب العلمیۃ)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

" من أنكر الحياة في القبر، وهم المعتزلة ومن نحا نحوهم"

(کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لو كنت متخذا خليلا قاله أبو سعيد، ج:16، ص:185، ط:داراحیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404102075

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں