عرض یہ ہے کہ میرے والد صاحب سرکار میں ملازم ہیں اور ہم اس وجہ سے سرکاری کواٹر میں رہتے ہیں۔ ہم نے اس کواٹر پر سہولت کے خاطر پیسے خرچ کر دیے ہیں اور جو کام ہم نے کیا ہے وہ ہمارے رشتہ دار نے کروایا، اس نے اس کام کی مزدوری نہیں لی ۔اس پر بغیر مزدوری تقریباً 28000 پیسے خرچ ہوئے تھے جو ہمارے والد صاحب نے حکومت سے لیے۔ 28000 ہزار کے بجائے ہمیں 18000 ملے باقے پیسے حکومتی ادارہ کے ملازمین نے رشوت کے طور پر لیے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ وہ اشیاء ہم اپنے ساتھ لے جائیں اور اس کے بدلے ہم وہ پیسے واپس کردیں تو کیا یہ جائز ہے؟ ان اشیاء کے قیمت میں اس دور میں بہت اضافہ ہوا ہے یعنی 28000 ہزار کے قیمت اب 100000 تک ہے تو ہمارے لیے کیا جائز ہے 28000 کی قیمت واپس کردیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد نے جب حکومتی کوارٹر پر کا م کروانے کے لیے جو اشیاء خریدیں اور ان کی قیمت حکومت سے وصول کرلی تو وہ اشیاء حکومت کی ملکیت ہوگئیں ۔ اب حکومت کی املاک حکومت سے قانونی اجازت کے بغیر لے جانا جائز نہیں ہے۔ باقی سائل کا یہ موقف کہ 28000 خرچہ ہوا اور کلیم میں منظوری کے لئے دس ہزار رشوت دہی میں خرچ ہوگئے تو غلطی محکمہ کے ملازمین کی ہے، اس کا بوجھ سرکار کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔
شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"المادة (1192) - (كل يتصرف في ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال."
(کتاب العاشر باب ثالث فصل اول ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۰۱، دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100571
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن