بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حصہ واپس کرنے کے باوجود چچا کا حصہ کا مطالبہ کرنا کا حکم


سوال

ميرے والد مرحوم نے2010 میں ایک زمین کا کام شروع کیا ،جس میں اپنے چھوٹے بھائی کو جن کے مالی حالات اچھے نہیں تھے،بنا کوئی رقم لیے شریک کیا، پھر کسی وجہ سے دونوں میں اختلاف ہوا اور والد صاحب نے چچا کو ان کی شراکت کا حصہ مع منافع کے ان کو ادا کرکے (جو كہ 14 لاکھ تھی) شراکت ختم کردی. چچا کا مطالبہ 16لاکھ کا تھا، جب کے ان کی رقم 14 لاکھ بنتی تھی،  دادا مرحوم نے تحقیق کروائی تو 14 لاکھ ہی تھے، لیکن معاملہ ختم کرنے کے لیے مزید ایک لاکھ والد صاحب سے دلوا دیئے اور معاملہ طے پایا، 2013 میں دادا کا انتقال ہو گیا اور 2017 میں والد صاحب کا بھی انتقال ہو گیا، اب ہمارے چچا ہم سے منافع مانگ رہے اور 65 لاکھ کا مطالبہ کر رہے ہیں. ان کے حساب سےجو ایک لاکھ رہ گیا تھا 16 لاکھ میں سے (چوں کہ میرے والد نے وہ ادا نہیں کیا اور دوسری زمین میں انویسٹ کر لیا تو وہ بھی شریک ہو گئے) اس کا نفع اب بڑھ کر اتنا ہو گیا ہے،. جب کہ ہمارے والد نے ہمیں اس کے متعلق کچھ نہیں کہا اور چچا کے پاس کوئی کتابت بھی نہیں ہے، باقی خاندان کے افراد کا کہنا بھی یہی ہےکہ کوئی رقم نہیں بنتی ہے، لیکن چچا اور ان کا بیٹا مسلسل پریشان کرتے ہیں ۔ سوال يہ ہے کہ  کیا ہمیں ان کو پیسے دینا چاہیے ؟ برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مرحوم  دادا کے فیصلہ کے مطابق مرحوم والد اور چچا کے درمیان معاملہ طے ہوگیاتھا  اور مرحوم والد نے چچا کو ۱۵ لاکھ روپے دے دیے اور چچا نے قبول بھی کر لیے اور اس میں سے 14 لاکھ دے دیئے تھے اور ایک لاکھ باقی تھے تو اب چچا کو  صرف ایک لاکھ کے مطالبے کا حق حاصل ہے،چچا کا یہ کہنا درست نہیں کہ چچا کے والد کے ذمہ جو ایک لاکھ رہ گئے تھے اور وہ رقم دوسری زمین میں انویسٹ ہوگئی  تو وہ بھی شریک ہوگئے، لہذا مذکورہ ایک لاکھ روپے کے علاوہ مرحوم والد کی جائیداد مرحوم والد کے ورثاء (بیوی،سائل ، اس کے بھائی بہن وغیرہ) کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فهو أنه عقد وضع لرفع المنازعة بالتراضي هكذا في النهاية. وأما ركنه فالإيجاب مطلقا والقبول فيما يتعين بالتعيين كذا في شرح الهداية."

(کتاب الصلح ، باب اول ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۲۸،دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(أما) (حكمه) فوقوع الملك في البدل وثبوت الملك في المصالح عنه إن كان مما يحتمل التمليك كالمال، ووقوع البراءة للمدعى عليه إن كان لا يحتمل التملك كالقصاص هذا إذا كان الصلح على الإقرار وفي الصلح على الإنكار ثبوت الملك في البدل للمدعي ووقوع البراءة للمدعى عليه عن الدعوى سواء كان المصالح عنه مالا أو لم يكن كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الصلح ، باب اول ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۲۹،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں