تین سال پہلے تجارت کی نیت سے ایک پلاٹ خرید لیا ،ا ب اس پلاٹ پر ایک پرائیویٹ سکول کے لیے بلڈنگ تعمیر کی گئی،سکول ابھی تک شروع نہیں کیا ہے لیکن کام مکمل ہونے پر سکول کاآغازکیا جائے گا، تو کیا اس پلاٹ پر جس پر اب سکول بنایا گیا ہے،زکوة واجب ہے؟
واضح رہے کہ جس زمین کو تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہو اور اخیر تک اس میں تجارت کی نیت بھی باقی ہو، تو ایسی زمین پر زکوۃ واجب ہوتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ خریدتے وقت ابتداء ًپلاٹ میں تجارت کی نیت کی گئی تھی، لہذا اس وقت اس کی قیمت فروخت پر زکوۃ واجب تھی، لیکن اب چوں کہ اس پلاٹ میں اسکول کے لیے تعمیرات کی گئی ہیں اور اسکول وہ خود چلائیں گے ، لہذا اب اس کی وجہ سے اس پلاٹ پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔تاہم اس اسکول سے جو آمدنی آئے گی اگر وہ نصاب کے بقدر ہو یا مالک پہلے سے صاحب نصاب ہوتو زکوۃ ادا کرتے وقت موجود رقم پر بھی زکوۃ واجب ہو گی۔
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے :
"ثم نیة التجارۃ مالم ینضم إلیه الفعل بالبیع أو الشراء، أو السوم فیما یسام، حتی أن من كان له عبد للخدمة، أو ثیاب البذلة نوى فیھا التجارۃ لم تکن للتجارۃ حتى یبیعھا فتکون في الثمن الزکاۃ مع ماله من المال، و هذا بخلاف ما لو کان عبد للتجارۃ ینوی أن یكون للخدمة بطل عنه الزکاة بمجرد النیة؛ لأنّ في الفصل الأول الحاجة إلی فعل التجارة، و هو لیس بفاعل فعل التجارۃ."
(باب زکات عروض التجارۃ،ج:۳،ص:۱۶۶،مکتبہ زکریا دیوبند)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144309100442
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن