وہ مومن نہیں جس کا آج کل سے بہتر نہ ہو ۔یہ جملہ کس کا قول ہے؟
بعینہ یہ جملہ تو کافی تلاش کے باوجود کتبِ احادیث میں نہیں مل سکا، البتہ اس کے قریب قریب مفہوم کی ایک روایت ’’مسند الفردوس ‘‘ ميں حضرت علی رضی اللہ کی سند سے ان الفاظ میں منقول ہے:
"من استوى يوماه فهو مغبونٌ، ومن كان آخرُ يومه شرًا فهو ملعونٌ، ومن لم يكن على الزيادة فكان على النقصان، ومن كان على النقصان فالموتُ خيرٌ له".
(مسند الفردوس للدیلمي،3/ 611، ط:دار الكتب العلمية)
ترجمہ: ’’جس شخص کے دودن یکساں گزرے،وہ نقصان میں ہے،جس کا کل آج بہتر نہ ہو، وہ ملعون ہے،جس کے عمل میں زیادتی نہ ہوئی ہو، وہ گھاٹے میں ہے،اور جس کے عمل میں کمی ہو گئی ہے،اس کے لیے مرنا ہی بہتر ہے‘‘۔
لیکن اس کی سند ضعیف ہے، چنانچہ علامہ زرکشیؒ ( 794ھ) نے"اللآلي المنثورة في الأحاديث المشتهرة" میں، حافظ سخاویؒ(902ھ) نے"المقاصد الحسنة" میں، محدّث عجلونیؒ( 1162ھ) نے" کشف الخفاء "میں اس کے ضعف کی تصریح فرمائی ہے۔
(اللآلي المنثورة في الأحاديث المشتهرة للزرکشی، ص 138، ط:دار الكتب العلمية/ المقاصد الحسنة للسخاوي، رقم الحديث: 1080، ص631، ط:دارالكتاب العربي/كشف الخفاء ومزيل الإلباس، حرف الميم، رقم الحديث: 2406، 2/ 276)
جب کہ حافظ عراقی(806ھ)اور ملا علی القاری (1014ھ) رحمہا اللہ کا فرمانا ہے:’’یہ جملہ عبد العزیز بن ابی رواد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں نصیحت کے طور پر فرمایا تھا۔‘‘
(المغني عن حمل الأسفار للعراقي، كتاب الصبر والشكر، ص1701، ط:دار ابن حزم،بيروت/الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة للملاعلي القاري، رقم الحديث: 458، ص328، ط: مؤسسة الرسالة)
قرآنی شاہد:
یہ مضمون کہ ہرانسان خسارے میں ہے،سوائے اس شخص کے، جو مسلسل عمل صالح میں لگا ہوا ہو، قرآن کریم کے صریح ارشاد میں ہے:
"{وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ }."[العصر: 1 - 3]
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144205200973
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن