بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حلقہ اورٹولیاں لگانا


سوال

حلقہ اور ٹولیا ں لگا نا کیسا ہے؟

جواب

مسجد میں  حلقہ بنا کر بیٹھنا اگر تعلیم دین کے لئے ہو تو جا ئز ہے،مسجد میں دنیاوی  با تیں کرنے کے لئےحلقہ اور ٹو لیا ں لگا نا شر عاً جائز نہیں۔

مساجد میں شور شرابہ کرنا، آواز بلند کرنا، لڑائی جھگڑے کرنا، اور حلقے لگا کر غیر دینی محفلیں سجانے سے سخت منع فرمایا گیا ہے، بلکہ اسے قیامت کی نشانیوں میں سے بتلایاگیا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في المصفى: الجلوس في المسجد للحديث مأذون شرعا لأن أهل الصفة كانوا يلازمون المسجد وكانوا ينامون، ويتحدثون، ولهذا لا يحل لأحد منعه، كذا في الجامع البرهاني"

مستدرک حاکم میں ہے:

"عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يأتي على الناس زمان يتحلقون في مساجدهم وليس همهم إلا الدنيا ليس لله فيهم حاجة فلا تجالسوهم."

(كتاب الرقاق، الرقم: 7916ج 4،ص 359،ط: دار الكتب العلمية)

ترجمہ:" حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِ گرامی ہے:  لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اپنی مسجدوں میں حلقے اور محفلیں لگا کر بیٹھیں گے،اور ان کا مقصد خالص دنیا ہی ہو گی، اللہ تعالی کو ان سے کوئی سروکار نہیں ، آپ ان کی محفل اور حلقہ میں شریک مت ہونا۔"

"صحیح البخاري" میں حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ ہے: 

"عن السائب بن يزيد، قال: كنت قائما في المسجد فحصبني رجل، فنظرت فإذا عمر بن الخطاب، فقال: اذهب فأتني بهذين، فجئته بهما، قال: من أنتما - أو من أين أنتما؟ - قالا: من أهل الطائف، قال: «لو كنتما من أهل البلد لأوجعتكما، ترفعان أصواتكما في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم."

( صحيح بخاري، كتاب الصلاة، باب رفع الصوت في المساجد،ج4 ص133،ط:الترا ث العربی)

ترجمہ:" سائب ابن یزید فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا کہ اچانک ایک شخص نے کنکر کے ذریعہ مجھے اپنی طرف متوجہ کیا ، جب میں  نے دیکھا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ تھے، انہوں نے فرمایا کہ جاکر ان دوآدمیوں کو میرے پاس لے آؤ، چنانچہ میں لے آیا، آپ نے انہیں فرمایا : تم کون ہو؟ یا فرمایا: کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم  وادی طائف سے آئے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اگر تم شہری ہوتے تو میں تمہیں سزا دیتا، ( کیوں کہ) تم اپنی آوازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بلند کررہے ہو۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100621

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں