بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شک کی صورت میں طلاق کا حکم


سوال

 ایک بندہ کی منگنی شادی سے 2سال قبل ہوئی تھی، اور منگنی کی موقع پر ایک نکاح پڑھایا گیا تھا، اور پھر شادی کے موقع پر دوسرا نکاح پڑھایا گیا،اب  بندہ نے طلاق کے الفاظ کا استعمال کیا ہے، لیکن  وہ شک میں مبتلا ہے کہ طلاق کے الفاظ پہلے نکاح سے قبل بولےتھے یاپہلے نکاح کے بعد ، البتہ شادی کے موقع پر جو نکاح پڑھایا گیا تھا اس کے بعد کچھ بھی نہیں بولا ، یعنی طلاق کا کوئی بھی لفظ نہیں بولا، اب مسئلہ یہ ہے کہ بندہ نے طلاق کے کچھ الفاظ بولے تھے،  لیکن یہ  یاد نہیں کہ  پہلے نکاح سے قبل بولے تھے یا بعد میں اور یہ بھی یاد نہیں کہ کتنے مرتبہ بولے تھے ، اب اس صورت میں کیا حکم ہے؟

وضاحت: مذکورہ شخص نے یہ طلاق کےالفاظ کسی دوست سے بات کرتے ہوئے کہے تھے ، کسی چیز پر بطور قسم  کے کہے تھے، بیوی کو اس معاملے میں کچھ پتہ نہیں، اب مذکورہ شخص کو وہ وقت معلوم نہیں کہ کس وقت میں وہ الفاظ بولے تھے، حتمی طور پر فیصلہ نہیں کر سکتا،  اس علاقے میں ہمارے ہاں کچھ لوگ منگنی کے موقع پر بھی نکاح پڑھتے ہیں، اور پھر شادی کے موقع پر بھی نکاح پڑھایا جاتا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب پہلا نکاح منگنی کے موقع پر تھا اور وہ مجلس نکاح کی نہیں تھی تو دوسرے نکاح سے پہلے، پہلے نکاح (منگنی) کے بعد دی جانے والی طلاق اگر دی بھی ہو تو اس کااعتبار نہیں، لہٰذا سائل کو اس بارے میں شک نہیں کرنا چاہیے۔

 فتح القدیر میں ہے:

"‌وشرطه ‌في ‌الزوج أن يكون عاقلا بالغا مستيقظا، وفي الزوجة أن تكون منكوحته أو في عدته التي تصلح معها محلا للطلاق."

(كتاب الطلاق،ج:3،ص:463،ط:دارالفكر)

کفایت المفتی میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"منگنی کی جو مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں وہ صرف رشتہ اور ناطہ مقرر کرنے کے لیے کی جاتی ہیں ۔ اس میں جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں وہ وعدہ کی حد تک رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ منگنی کی مجلس کے بعد فریقین بھی اس کو نکاح قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے بعد نکاح کی مجلس منعقد کی جاتی ہے اور نکاح پڑھایا جاتا ہے اس لیے ان مجالس کے الفاظ میں عرف یہی ہے کہ وہ بقصد وعدہ کہے جاتے ہیں نہ بقصدِ نکاح ، ورنہ نکاح کے بعد پھر مجلس نکاح منعقد کرنے کے لیے کوئی معنی نہیں ، نیز منگنی کی مجلس کے بعد منکوحہ سے اگر زوج تعلقات زنا شوئی کا مطالبہ کرے تو کوئی بھی اس کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ،بلکہ کہتے ہیں کہ نکاح تو ہوا ہی نہیں ۔ عورت کو مرد کے پاس کیسے بھیج دیا جائے،  بہر حال منگنی کی مجلس وعدے کی مجلس ہے اس کے الفاظ سب وعدہ پر محمول ہوں گے ۔ کیوں کہ عرف یہی ہے ، لہذا اس کو نکاح قرار دینا درست نہیں، البتہ اگر منگنی کی مجلس میں صریح لفظ نکاح استعمال کیا جائے ۔ مثلا ً زوج یا اس کا ولی یوں کہے کہ اپنی لڑکی کا نکاح میرے ساتھ کر دو اور ولی زوجہ کہے کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح تیرے ساتھ کر دیا تو نکاح ہوجائے گا ، لان الصریح یفوق الد لا لۃ۔"

(کتاب النکاح،ج:5،ص:49،ط:دارالاشاعت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406101662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں