صورتِ مسئولہ میں زید کو اس کے سسر کی جانب سے بدنامی کے خوف سے جو رقم دی گئی ہے ، جس سے مقصود بظاہر یہی ہے کہ زید اس معاملے کو ظاہر نہ کرے،جیساکہ سوال سے معلوم ہوتا ہے ،تو زید کے لیے اس رقم کا وصول کرنا جائز نہیں تھا زید پرلازم ہے کہ یہ رقم اپنے سسر کوواپس کردے، اس رقم کے بدلے میں طلاق دینے یا خلع حاصل کرنے کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی اس لیے اس رقم کو طلاق یا خلع کا عوض قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
زید نے جب فاطمہ کو رخصتی سے قبل طلاق دی ہے اور عدد یاد نہیں ہے ، گواہ بھی موجود نہیں ہیں، اور غالب گمان بھی کوئی نہیں ،نفس طلاق دینا یاد ہے تو اس سے ایک طلاق شمار کی جائے گی ،اور رخصتی سے قبل ایک طلاق سے ہی نکاح ٹوٹ جاتا ہے ۔ اب جب کہ یہ دونوں دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے سرے سے نکاح کرسکتے ہیں، البتہ آئندہ کے لیے زید کو فقط دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا طلق الرجل امرأته ثلاثًا قبل الدخول بها وقعن عليها، فإن فرق الطلاق بانت بالأولى، ولم تقع الثانية والثالثة".
(الفصل الرابع في الطلاق قبل الدخول، ج:1، ص:373، ط:مكتبه رشيديه)
الاشباہ والنظائر میں ہے:
"ومنها:
شك هل طلق أم لا لم يقع .
شك أنه ؛ طلق واحدة ، أو أكثر ، بنى على الأقل كما ذكره الإسبيجابي إلا أن يستيقن بالأكثر ، أو يكون أكبر ظنه على خلافه"
(الأشباه والنظائر في الفقه الحنفي،ج:1،ص:61،قاعدة: من شك هل فعل أم لا؟ القاعدة الثالثة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502101330
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن