بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بھائی کی کمائی سے خریدی گئی زمین کا حکم


سوال

دو بھائی ہیں ،ان میں ایک بھائی دوسرے بھائی کے ویزے پر باہر گیا اور پیسے کماتا تھا اور دوسرا گھر سنبھالتا، پھر جب وہ واپس اپنے ملک آیا تو سن دو ہزار ایک میں بٹوارہ ہوا، بٹوارے کے وقت زمین دونوں بھائیوں کے درمیان آدھی آدھی تقسیم ہوگئی، انتقال بھی دونوں کے پاس ہے، اس کے بعد چار بار دوبارہ چھوٹے چھوٹے حسابوں میں وہ دونوں  اسی تقسیم کو تسلیم کر چکے ہیں، اب جو باہر سے بھائی آیا تھا وہ 2021ء میں کہتا ہے کہ یہ زمین میں نے اپنے ڈیوٹی کے بونس سے خریدی ہے، لہذا یہ صرف میری زمین ہے، آپ حضرات سے گزارش ہے کہ ہماری راہ نمائی کیجیے۔

واضح رہے کہ زمین باہر ملک ملازمت کرنے والے بھائی کی  کمائی سے خریدی گئی تھی،اور پھر بوقتِ تقسیم اس بھائی نے آدھی زمین دوسرے بھائی کو انتقال سمیت دے دی تھی،نیز باہر ملک جانے والے بھائی نے دوسرے بھائی سے کہا تھا کہ آپ گھر سنبھالو، میں کمائی کروں گا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ زمین اگرچہ ایک بھائی کی کمائی سے خریدی گئی تھی ، تاہم جب مذکورہ بھائی نے باہر ملک سے واپسی پر بٹوارہ کرکے اس زمین کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ اپنے نام اور دوسرا حصہ دوسرے بھائی کے نام منتقل کرکے مکمل اختیار اور تصرف دوسرے بھائی کو دے دیا تھا ، تو اس سے مذکورہ زمین کا آدھا حصہ دوسرے بھائی کی ملکیت میں شامل ہوگیاہے۔ اب مذکورہ بھائی کی جانب سے اس زمین کو دوبارہ واپس لینے یا اس پر ملکیت کا دعوی کرنا درست نہیں ہے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وتصح في محوز مفرغ عن أملاك الواهب وحقوقه ومشاع لايقسم ولايبقى منتفعًا به بعد القسمة من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة كالبيت  الصغير والحمام الصغير ولا تصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعا به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي".

(كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز،4 /374، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

( کتاب الھبة، ج: 5 ،ص:690ط ؛ سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرائط الرجوع بعد ثبوت الحق حتى لايصح بدون القضاء والرضا؛ لأن الرجوع فسخ العقد بعد تمامه وفسخ العقد بعد تمامه لا يصح بدون القضاء والرضا كالرد بالعيب في البيع بعد القبض".

(كتاب الهبة، فصل في حكم الهبة، ج: 6، ص: 128، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں