بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بیوی کے ساتھ الگ گھر میں رہائش اختیار کی جا سکتی ہے؟


سوال

 میں آپ سے یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ میں نے الگ ہونے کی بات کرنی تھی  والد صاحب سے ، لیکن وہ سخت ناراض ہو رہے ہیں کہ  ٹھیک ہے تم  جاؤ مگر میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہوگا،  میرے مرنے پر بھی نہیں آنا، میں  بہت پریشان ہوں،  میری بیوی الگ پریشان رہتی ہے کہ سب میری وجہ سے ہورہا ہے،  اب گھر میں پوری دیوار کھڑی ہو رہی ہے،  ابو چھوٹی بہن کے ساتھ رہیں گے،  میں اور میری بیوی الگ رہیں گے ، ہر بات یہاں آکر ختم ہو تی ہے کہ امی کا فیصلہ تھا کہ گھر چاروں بچوں میں برابر تقسیم ہوگا،  میری تو سمجھ نہیں آتا کیا کروں؟ آپ مشورہ دیں میں آپ کے جواب کا انتظار کروں گا۔

جواب

شادی شدہ شخص پر بیوی بچوں کے جداگانہ حقوق ہیں اور والدین کے مستقل حقوق ہیں، کسی ایک کی ادائیگی کی وجہ سے دوسرے کی حق تلفی درست نہیں ہے،    والدین کے حقوق (خدمت و راحت رسانی اور ادب و احترام) کی ادائیگی کی حتی الوسع کوشش کرتے رہنا چاہیے، اور بیوی اور اولاد کے حقوق  کی بھی۔

 شرعی اعتبار سے  شوہر   پر اپنی   بیوی کو ایسی  رہائش فراہم کرنا  ضروری ہے کہ جس میں کسی اور کا عمل دخل نہ ہو ،  جب کہ بیٹا ہونے کے اعتبار سے  اپنے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا، ان کے ضرورت مند  ہونے کی صورت میں نان و نفقہ کا بندوبست کرنا  اور  ان کا ادب و احترام کرنا لازم ہے( البتہ والدین کے  مال دار  ہونے کی صورت میں ان کا نفقہ  لازم نہیں)   پس  اگر انسان ہمت کرے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مانگتا رہے تو دونوں (والدین اور بیوی بچوں) کے حقوق ادا کرنا آسان ہوجاتاہے۔

لہٰذا آپ دیانت داری سے خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں کہ اگر اسی گھر میں والد صاحب کے ساتھ رہ کر بیوی کے حقوق میں کوئی کوتاہی نہ ہو رہی ہو، تو ساتھ رہنے میں ہی بہتری ہے،والد کی خدمت انسان کی سعادت اور نیک انجام کا سبب ہے، چناں چہ  حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہےكه " باپ جنت کا درمیانی (سب سے بہتر) دروازہ ہے، چاہے تم اس دروازے کو ضائع کر دو ، یا اس کی حفاظت کرو"، لیکن اگر ساتھ رہنا جھگڑے  اور رشتے میں تلخیوں کا سبب بن رہا ہو تو اپنے طور پر الگ رہائش کا انتظام کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بہر دو صورت اپنے والد صاحب کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھ کر اس میں کوئی کمی نہ آنے دیجیے، اور اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل رب کے حضور استخارہ ضرور کریں، اس کی برکت سے بہت سے الجھے ہوئے کام سلجھ جاتے ہیں۔

سنن  الترمذي  میں ہے:

"قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «الوالد ‌أوسط ‌أبواب ‌الجنة، فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه»."

(باب ما جاء في بر الوالدين، ‌‌باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين، ج:4، ص:311، رقم:1900، ط:مصطفي البابي الحلبي)

"المفاتيح في شرح المصابيح للمظهري الحنفيؒ" میں ہے:

"قوله: "أوسط أبواب الجنة"؛ يعني: للجنة أبواب أحسنها دخولا: أوسطها، وسبب دخول ذلك الباب المتوسط: حقوق الوالدين، فمن حفظ حقوقهما يسهل عليه دخول ذلك الباب، ومن ضيع - أي: ترك - حقوقهما لم يدخل ذلك الباب، وهذا الحديث تحريض على محافظة حقوق الوالدين."

(كتاب الآداب، باب البر و الصلة، ج:5، ص:209، ط:دار النوادر)

"الفتاوي الهندية"میں ہے:

"‌تجب ‌السكنى ‌لها ‌عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح الكنز."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثاني في السكني، ج:1، ص:556، ط:دار الفكر)

"الموسوعة الفقهية الكويتية" میں ہے:

"السكنى للزوجة على زوجها واجبة، وهذا الحكم متفق عليه بين الفقهاء؛ لأن الله تعالى جعل للمطلقة الرجعية السكنى على زوجها. قال تعالى: {أسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم} (1) فوجوب السكنى للتي هي في صلب النكاح أولى. ولأن الله تعالى أوجب المعاشرة بين الأزواج بالمعروف، قال تعالى: {وعاشروهن بالمعروف} (2) ومن المعروف المأمور به أن يسكنها في مسكن تأمن فيه على نفسها ومالها، كما أن الزوجة لا تستغني عن المسكن؛ للاستتار عن العيون والاستمتاع وحفظ المتاع. فلذلك كانت السكنى حقا لها على زوجها، وهو حق ثابت بإجماع أهل العلم (3)...

... فالجمع بين الأبوين والزوجة في مسكن واحد لا يجوز (وكذا غيرهما من الأقارب) ولذلك يكون للزوجة الامتناع عن السكنى مع واحد منهما؛ لأن الانفراد بمسكن تأمن فيه على نفسها ومالها حقها، وليس لأحد جبرها على ذلك. وهذا مذهب جمهور الفقهاء من الحنفية والشافعية والحنابلة."

('السکنی'، الأحكام المتعلقة بالسكني، ج:25، ص:108-109، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101542

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں