بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں حلقہ بنا کر ذکر کرنے سے متعلق مسند دارمی کی روایت کی تحقیق وتفصیل


سوال

مسند دارمی میں طویل حدیث ہے کہ حضرت عبدالله بن مسعود  رضی اللہ عنہ ایسے لوگوں پر  غصہ ہوئے  جو نماز مغرب کے بعد حلقہ بناتے تھے اور واعظین اپنی  طرف سے فرماتے تھے کہ تسبیح اتنی بار پڑھو ۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ یہاں علماء دیوبند حلقے بھی بناتے ہے اور اپنے تجربہ کے مطابق معدود اذکار بھی دیتے ہیں تو کیا یہ بدعت ہے؟

جواب

1-مساجد میں اجتماعی ذکر کے حلقوں کے حکم سے متعلق تفصیل ملاحظہ فرمائیے :     

اجتماعی ذکر کا ثبوت اور شرائط:

مسجد میں اجتماعی ذکر کے حلقوں کا اہتمام  پسندیدہ اور قابلِ تائید عمل ہے، لیکن اس کے لیے کچھ شرائط ہیں:

 1: ریا ونمود کا خوف نہ ہو۔

2: اصرار والتزام نہ ہو، یعنی شرکت نہ کرنے والوں کو اصرار کرکے شرکت پر آمادہ نہ کیا جائے اور شریک نہ ہونے والوں پر طعن وتشنیع نہ کی جائے۔

3: آواز شرکاءِ حلقہ تک ہی محدودو رکھی جائے،مسجد میں  ذکر  یا کوئی بھی ایسا عمل اتنی  آواز سے کرنا جس سے دیگر نمازیوں یا اہلِ محلہ کو تشویش ہوتی ہو ، جائز نہیں ہے۔

چند احادیث  وعبارات جن سے اجتماعی ذکر کا ثبوت ہوتا ہے، ذیل میں درج کی جاتی ہیں :

’’سنن ابن ماجه ‘‘ميں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم من بعض حجره، فدخل المسجد، فإذا هو بحلقتين، إحداهما يقرءون القرآن، ويدعون الله، والأخرى يتعلمون ويعلمون، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «كل على خير، هؤلاء يقرءون القرآن، ويدعون الله، فإن شاء أعطاهم، وإن شاء منعهم، وهؤلاء يتعلمون ويعلمون، وإنما بعثت معلما» فجلس معهم."

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کسی حجرہ سے مسجد میں آئے،  آپ  ﷺ نے دیکھا کہ دو حلقے ہیں:  ایک  قرآن کی تلاوت کر رہا ہے اور دعا مانگ رہا ہے اور دوسرا حلقہ علم سیکھنے سکھانے میں مشغول ہے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  دونوں بھلائی پر ہیں،  یہ قرآن پڑھ رہے ہیں اور اللہ سے مانگ رہے ہیں۔ اللہ چاہیں تو ان کو عطا فرمائیں اور چاہیں تو نہ دیں اور یہ علم دین سیکھ سکھا رہے ہیں اور مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے،  چنانچہ آپ  ﷺ حلقۂ  علم میں تشریف فرما ہوئے۔

(سنن ابن ماجه، باب فضل العلماء والحث على طلب العلم، (1/ 155) برقم (229)، ط/ دار الرسالة العالمية)

’’صحيح البخاری ‘‘ میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "يقول الله تعالى: أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه إذا ذكرني، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم."

 ترجمہ: حضرت ابو هريره رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب میرا بندہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے یاد کرتا ہوں، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں (یعنی چھپ کر آہستہ سے تنہائی میں) یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں (یعنی تنہائی میں جیسے اس کی شان ہے) یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی مجمع میں یاد کرتا ہے (یعنی لوگوں کے درمیان جہرًا میرا ذکر کرتا ہے) تو میں اس سے بہتر اور افضل مجمع (یعنی فرشتوں کے مجمع) میں اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔

(صحيح البخاري، باب قول الله تعالى: {ويحذركم الله نفسه}، (9/ 121)، برقم (7405)، ط/ دار طوق النجاة)

’’رد المحتار‘‘ ميں ہے:

" مطلب في رفع الصوت بالذكر:

(قوله: و رفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارةً قال: إنّه حرام، وتارةً قال: إنّه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو: "«وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص و الأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر و الإخفاء بالقراءة و لايعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي»؛ لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل؛ لأنه أكثر عملًا و لتعدي فائدته إلى السامعين، و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همّه إلى الفكر، و يصرف سمعه إليه، و يطرد النوم، و يزيد النشاط. اهـ. ملخصًا، و تمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا و خلفًا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد و غيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ ... إلخ "

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 660)، ط/  دار الفكر- بيروت)

2-  مسند ِ دارمی کی مذکورہ روایت سے متعلق حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحب حفظه الله نے اپنی کتاب ’’ذکرِ اجتماعی وجہری شریعت  کے آئینے میں ‘‘ میں (ص: 181 تا 225) تفصیلی طور پر لکھا ہے ، اور روایت پر ہر پہلو سے بحث فرمائی  ہے  اور اس  کےسات جوابات درج فرمائے ہیں، مختصرا چند جوابات یہاں درج کیے جاتے ہیں: 

’’  علماء نے دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ اگر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اثر ثابت ہے تو یہ دوسری بہت ساری صحیح مرفوع روایات سے متعارض ہے ، جو پہلے گزر چکیں ، نیز عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اس اثر کے خلاف روایت مروی ہے، جس کو علامہ سیوطی ؒ اوردوسرے حضرات نے نقل کیا ہے ، مفہوم یہ ہے کہ ابو وائل کہتے ہیں یہ لوگ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے گمان کرتے ہیں کہ ونہ ذکر سے روکتے ہیں ، حالانکہ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ می مجلس میں جب بھی بیٹھا اس مجلس میں ذکر کرنا ثابت ہے ، تو معلوم ہوا کہ راوی کا عمل اپنے پہلے عمل کے خلاف ہو تو اس کے دوسرے عمل کو ترجیح ہوگی ، اس لیے کہ شاید   ان کے نزدیک وہ عمل منسوخ ہوگا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ’’فنکاحھا باطل‘‘ اس کے خلاف ان کا عمل تھا کہ انہوں نے خود اپنی بھتیجی کا نکاح کروایا تھا والد کی عدم موجودگی میں تو علماء احناف نے اسی کو ترجیح دی، عبارات حسب ذیل ہیں : 

الحاوی للفتاوی میں ہے : 

وعلى تقدير ثبوته فهو معارض بالأحاديث الكثيرة الثابتة المتقدمة، وهي مقدمة عليه عند التعارض، ثم رأيت ما يقتضي إنكار ذلك عن ابن مسعود، قال الإمام أحمد بن حنبل في كتاب الزهد: ثنا حسين بن محمد، ثنا المسعودي، عن عامر بن شقيق، عن أبي وائل قال: هؤلاء الذين يزعمون أن عبد الله كان ينهى عن الذكر، ما جالست عبد الله مجلسا قط إلا ذكر الله فيه. (الحاوی للفتاوی (1/ 472). 

سنن درامی کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ سد باب کے طور پر فرمایا تھا، تاکہ آگے چل کر کہیں بدعت کا کام شروع نہ ہوجائے ، چنانچہ سنن دارمی میں ہے: أو مفتوا باب ظلالةیعنی گمراہی کا دروازہ کھل سکتا تھا اس وجہ سے پہلے ہی سدِ باب فرما دیا ۔

الجواب(3):  صاحب فتاوی بزازیہ نے یہ جواب دیا ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نکالنا  ان لوگوں کے اس طرح کی مجلس لگانے کو عبادت سمجھنے کی وجہ سے تھا، اور لوگوں کو بتانے کے لیے کہ ذکر کی مجلس کو عبادت مقصودہ سمجھنا بدعت ہے ، ورنہ فی نفسہ جائز ہے ، مگر اس کو شریعت اورسنت کا درجہ نہ دیں ۔

فتاوی بزازیہ میں ہے : 

قلتُ الإخراج عن المسجد لو نسب إليه بطريقة الحقيقة يجوز أن يكون لاعتقادهم العبادة فيه، ولتعليم الناس بأنه بدعة والفعل جائز. (فتاوى بزازية على هامش الهندية 6/ 378).

يعني فعل جائز هے لیکن اس کو عبادت مسنونہ مقصودہ سمجھنا بدعت ہے ۔

الجواب(4): علامہ آلوسی ؒ کی ذکر کردہ  عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسجد میں بہت زیادہ آواز  بلند کر کے ذکر کر رہے تھے، اس وجہ سے منع فرمایا۔أو محمول على الجهر البالغ  (روح المعاني  (16/ 163).  

الجواب(5): سنن دارمي كي روايت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی گمراہ فرقہ کے لوگ تھے جو بدعت کا رواج ڈالنا چاہتے تھے مسلمانوں کے درمیان کسی خاص طریقہ کو لازم کر کے، اس وجہ سے جب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ای بات کا علم ہوا تو آپ نے سخت الفاظ میں ڈانٹا اور فرمایا:لقد جئتم ببدعة ظلماءتم لوگوں نے گمراہی کا کام شروع کردیا،إنكم لأهدى من محمد ﷺ وأصحابه؟  كيا تم اصحاب محمد ﷺ سے زیادہ ہدایت پر ہو ؟انكم لعلى ملة هي أهدى من ملة محمد؟  کیا تم لوگ محمد ﷺ کی شریعت سے زیادہ ہدایت پر ہو ؟ 

فقال عمرو بن سلمة رأينا عامة اولئك الحلق يطاعنونا يوم النهروان مع الخوارج.  (سنن دارمي، 1/ 79)

عمرو بن سلمه فرماتے ہیں ک ان میں اکثر لوگوں کو ہم نے دیکھا جنگ نہروان کے دن خوارج کے ساتھ مل کر ہمر نیزے سے وار کر تے تھے۔

نوٹ:  یہ تمام الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ کسی گمراہ فرقہ کے لوگ تھے، اور بدعت کی بنیاد ڈالنا چاہتے تھے، اور بعد میں خوارج کے ساتھ مل گئے تھے، اور اس حقیقت کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنی ایمانی فراست سے پہلے ہی معلوم کر لیا تھا اسی وجہ سے ڈانٹا، ورنہ ذکر کرنے والوں کو برا بھلا کہنا وہ بھی ایک جلیل القدر صحاب جو ہمیشہ ذکر وفکر میں ہنے والے سے بہت بعید ہے،  نیز ہمیشہ ذکر واذکار میں رہنے والے صوفیاء  کرام خیر القرون والے اتنی جلدی گمراہ ہوجائیں یہ بھی سمجھ سے بعید ہے۔

الجواب(6):  شیخ الاسلام حضرت اقدس مدنی ؒ کا جواب : 

حضرت سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت مذکورہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو حضرت نے جواب میں تین احادیث ذکر فرمائیں جو فضائل ذکر میں گزر گئیں  اس کے بعد فرمایا: یہ روایات اور ان کے ہم معني شیخین وغیرہما کی مرفوعات صحیحہ ہیں ان کے مقابلہ میں درامی کی وہ روایت جو آپ نے ذکر فرمائی  ہیں کیا حیثیت رکھتی ہیں ؟  جب کہ وہ موقوف ہیں اور اس کے روات متفق علیہ نہیں ہیں  اگرچہ ثقات ہیں ،  اس لیے معارضہ کیا جائےگا تو مذکورہ بالا (یعنی صحیح روایات ) ہی کو ترجیح ہوگی۔ (فتاوی شیخ الاسلام (ص: 69 و70)، اجتماعی مجالس ذکر)

الجواب(7)  عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو ہم نے علی سبیل التنزل  حسن تسلیم کیا تھا، اور اس کے جوابات تحریر کیے تھے، ورنہ حقیقت میں وہ ضعیف ہونی چایہے اس لیے کہ اسانید کے ضعف کے علاوہ اس میں اضطراب ہے ۔ 

اضطراب کی تفصیل ملاحظہ ہو : 

(۱) اضطراب : دارمی میں ’’ قبل صلاۃ الغداۃ‘‘ کا لفظ ہے  یعنی نماز فجر سے پہلے اور طبرانی  معجم کبیرکی روایت میں ’’من المغرب إلى االعشاء‘‘ کا لفظ ہے  یعنی مغرب سے عشاء تک ۔

(۲) اضطراب: دارمی کی روایت میں ’’فإذا خرج مشينا معه إلى المسجد‘‘ یعنی مسجد کا تذکرہ ہے، اور مصنف عبد الرزاق میں ’’إلى البرية‘‘ کا لفظ ہے یعنی صحرا   میں ذکر کی مجلس لگی تھی ۔

(۳) اضطراب: دارمی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص پڑھوا رہا تھا اور سب اس کی اقتدا ء میں پڑھتےتھے،  اس کے صبر خلاف طبرانی کی بعض روایات میں ہے کہ  سب ایک ساتھ پڑھتے تھے کسی کے پڑھوانے کا تذکرہ نہیں ہے، اور دیگر بعض میں ہے ۔

(۴) اضطراب: بعض روایات میں ہے کہ ان کو نکال دیا مثلا  طبرانی کی روایت جس میں انقطاع ہے ، اور دوسری روایت میں ہے کہ دو جماعتوں کو ایک جماعت بنادیا اور دیگر بعض میں دونوں نہیں ہے ۔

یہ سب اضطراب ہے جیسے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت کو محدثین نے مضطرب قرار دیا ہے،     ملاحظہ ہو بیہقی کے حاشیہ الجوہر النقی میں ہے : 

ذكر فيه نخلة بشير لابنه النعمان وقوله عليه السلام (اردده) قلتُ: قد اضطرب متنه اضطرابا شديدا.  (السنن الكبرى مع الجوهر النقي (6/ 179)، دار المعرفة)

اضطراب كي تفصيل  اعلاء السنن میں ہے ۔ (اعلاء السنن (16/ 100)، ط/ ادارۃ القرآن)

نیز ترمذی شریف کی وہ روایت جس میں فجر اور ظہر کا احتلاف ہے اس کو محدثین نے مضطرب قرار دیا ہے ، اور اسی اضطراب کی وجہ سے ضعیف کہہ کر حنفیہ نے عمل نہیں کیا۔

ملاحظہ ہو : ترمذی، باب ما جاء في الر جل يصلي وحده ثم يدرك الجماعة فيصل، (1/ 52)۔ معارف السنن، بحث اضطراب أحادیث الإعادة ، (2/ 274)، ط/ سعيد۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت ،اضطراب کی وجہ سے ضعیف ہے ؛کیونکہ اضطراب،  ضعف کی علامت ہے ۔ 

حافظ ابن صلاح علوم الحدیث میں فرماتے ہیں :

والاضطراب موجب ضعف الحديث؛ لإشعارہ بأنه لم يضبط، والله أعلم.

(علوم الحديث لابن الصلاح ص: 94، ط: دار الفكر)

(ذکرِ اجتماعی وجہری شریعت  کے آئینے میں ،  ص: 191 تا 200،  ط:دار العلوم زکریا ، جنوبی افریقہ) 

روایت سے متعلق مزید تفصیل کے لیے کتاب ’’ ذکرِ اجتماعی وجہری شریعت  کے آئینے میں ‘‘  (ص: 181 تا 225)  سے متعلقہ بحث ملاحظہ فرمائیے ۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408102654

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں