گاؤں والوں کا کہنا ہےکہ کل چندہ مثال کے طور پر 40 ہزار ہوا اس میں سے گاؤں کے متولی اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس میں 70 پرسنٹ جو تراویح سنانے والا ہے ان کو دیا جائے اور اس کے بعد جو رقم بچے گی پھر اس میں 70 پرسنٹ جو امام ہیں ان کو دیا جائے، پھر باقی رقم جو بچے گی اس میں کھانا لانے والے کو اور موذن کو دیا جائے گا اس میں کچھ لوگ اعتراض کر رہے ہیں جو کہ چندہ دینے والوں میں سے ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر چندہ دینے والوں نے مصرف کی تعیین کردی تھی (مثلاً یہ امام کے لیے ہے) تو اسی مصرف پر چندہ صرف کیا جائے گا، اس کے خلاف کرنا جائز نہیں ہوگا، اور اگر چندہ دینے والوں نے مصرف کی تعیین نہیں کی تھی اور متولی کو مسجد یا مصالح مسجد میں صرف کرنے کا مکمل اختیار دے دیا تھا تو ایسی صورت میں متولی کا مسجد کی ہر مصلحت اور مصرف میں خرچ کرنا درست ہوگا۔ گاؤں کے متولی کو مذکورہ رقم مسجد یا مصالح مسجد کے علاوہ کسی اور مصرف میں رقم خرچ کرنے کا حق نہیں ہوگا۔
باقی تراویح میں قرآن سنانے کی اجرت کا لینا دینا شرعاً جائز نہیں، البتہ اگر کسی جگہ خالص اللہ کی رضا کے لیے قرآن سنانے والا حافظ نہ ملتا ہو اور قرآن سننے سے محرومی کی نوبت آتی ہو تو مجبوراً یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ حافظ کو رمضان المبارک کے لیے نائب امام بنادیا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نمازیں سپرد کردی جائیں اور اس خدمت کے عوض رمضان المبارک کے آخر میں بطور اجرت وہ رقم دے دی جائے تو یہ جائز ہوگا، لیکن اگر اس نے صرف تراویح کی امامت کی ہو تو بطور اجرت کسی قسم کی رقم دینا جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء."
(كتاب الوقف، ج:4، ص:343، ط:سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"مسجد له مستغلات وأوقاف أراد المتولي أن يشتري من غلة الوقف للمسجد دهنا أو حصيرا أو حشيشا أو آجرا أو جصا لفرش المسجد أو حصى قالوا: إن وسع الواقف ذلك للقيم وقال: تفعل ما ترى من مصلحة المسجد كان له أن يشتري للمسجد ما شاء وإن لم يوسع ولكنه وقف لبناء المسجد وعمارة المسجد ليس للقيم أن يشتري ما ذكرنا وإن لم يعرف شرط الواقف في ذلك ينظر هذا القيم إلى من كان قبله، فإن كانوا يشترون من أوقاف المسجد الدهن والحصير والحشيش والآجر وما ذكرنا كان للقيم أن يفعل وإلا فلا، كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الوقف، الباب الحادى عشر في المسجد وما يتعلق به، الفصل الثانى في الوقف وتصرف القيم وغيره فى مال الوقف عليه، ج:2، ص:461، ط:رشيدية)
فتاوی محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:
"اگر چندہ دہندگان نے مصرف کی تعیین کردی ہے تو اسی مصرف پر چندہ صرف کیا جائے گا، اس کے خلاف نہ کیا جائے، اگر مصرف کی تعیین نہیں کی، بلکہ مہتمم کو مصالح مدرسہ میں صرف کرنے کا کلی اختیار دیدیا ہے تو پھر ہر مصلحت میں صرف کرنا درست ہے۔"
(مدارس کے سفراء اور چندہ کے بیان، ج:15، ص:599، ط:ادارۃ الفاروق)
فتاوی رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:
"جس جگہ لوجہ اللہ قرآن سنانے والا حافظ نہ ملتا ہو اور قرآن سننے سے محرومی کی نوبت آتی ہو تو مجبوراً یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ امام تراویح کو رمضان کے لیے نائب امام مقرر کرلیا جائے اور اس کے ذمہ مغرب عشاء اور دو تین نمازیں پڑھانا لازم کردیا جائے تو اجرت لینے دینے کی جواز کی صورت ہوجائے گی۔"
(مسائل تراویح، ج:6، ص:245، ط:دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102116
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن