بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شعبان 1446ھ 06 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

وقف زمین کو دوبارہ وقف کرنا


سوال

  اگر کسی شخص نے کسی ادارے کے لئے ایک ذمہ دار شخص کے ذریعے زمین کا ایک قطعہ وقف کردیا ہو اور اس پر مدرسہ بھی تعمیر ہوگیا ہو ۔ اب تقریبا 35 سال بعد واقف کے فرزندان اسی وقف شدہ زمین کو دوبارہ کسی اور صاحب کے نام وقف کر دیتے ہیں ۔ کیا ایسا کرنے سے یہ زمین کسی اور کے نام پر دوبارہ وقف ہوگی ۔ اس حوالے سے شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ  جب کسی  زمین کو  مدرسہ کے لیے وقف کردیا جائے اور وہ وقف تام ہو جائے ، تو اس وقف شدہ زمین کو  پھر  دوبارہ سے  وقف کرنا درست نہیں ہے،لہذاصورت مسئولہ میں مذکورہ زمین ایک  دفعہ مدرسہ کے لیے  وقف کرنے سے شرعاً وقف ہوچکی ہے، نیز مذکورہ وقف تام  بھی ہوچکا ہے، لہذا اس زمین کو دوبارہ سے کسی اور شخص کے نام  وقف نہیں کرسکتے۔باقی واقفین کے فرزندان پینتیس سال بعد  تبدیلی کیوں چاہتے ہیں ؟واقف نے اپنے بعد کسے نامزد کیا تھا ان امور کی وضاحت کرکے دوبارہ معلوم کرلیا جائے ۔

الجوہرۃ النیرہ میں ہے:

"وإذا ‌صح ‌الوقف ‌لم ‌يجز ‌بيعه ‌ولا ‌تمليكه."

(كتاب الوقف،وقف العقار،336/1، ط:المطبعة الخيرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فإذا تم ولزم  لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)

(قوله: فإذا تم ولزم) لزومه على قول الإمام بأحد الأمور الأربعة المارة عندهما بمجرد القول، ... (قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك درر؛ ... الخ.

.... ولا يرهن لأنه في رهن الوقف لا في الرهن به، بل هو تفريع على قوله: ولا يملك فافهم ووجهه أن الرهن حبس شيء مالي بحق يمكن استيفاؤه منه كالدين والأعيان المضمونة بالمثل والقيمة، حتى لو هلك الرهن صار المرتهن مستوفيا حقه لو مساويا للرهن، ولا يخفى أن الاستيفاء إنما يتأتى فيما يمكن تمليكه والوقف لا يمكن تمليكه فلا يصح الرهن به ولأنه أمانة عند المستعير وهو غير مضمون." 

(‌‌كتاب الوقف،351،352/4، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603103307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں