گزشتہ ایک عرصے سے آپ کے اس پیج کے توسط سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور سیکھتے چلے آ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزائے خیر عطا فرمائے آمین!
گزارش یہ تھی کہ بندہ ایک ٹیکسٹائل مل میں کام کر رہا ہے ،جہاں پہ کمپنی کا یہ ایک طریقہ کار ہے کہ ورکرز کی تنخواہ میں سے ایک مخصوص رقم کی ہر ماہ کٹوتی ہے اور پھر سال کے آخر میں اس کٹوتی کو ڈبل بطور بونس کے نام سے ورکر کو لوٹایا جاتا ہے مثلاً:2 ہزار ماہانہ کٹوتی پر 24000 سالانہ بنتا ہے ،جو کمپنی 48000 روپے کی شکل میں واپس کرتی ہے، اب ہمیں نہیں پتہ کہ وہ ہمارا پیسہ کس کام میں لگا رہے ہیں؟ اب اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ اضافی 24000 رقم کیا سود کے زمرے میں شامل ہوں گے؟ کیوں کہ ان میں کمی بیشی نہیں ہوتی ہے یہ 48000 ہی ملنے ہیں، اس کے بارے میں فرمائیں تاکہ بندہ مطمئن ہو کے کام کر سکے؟
وضاحت:کمپنی اپنی مرضی سے کاٹتی ہے ورکرز کا عمل دخل نہیں ہے اور اس کو کمپنی سالانہ بونس کا نام دیتی ہے جو ورکرز کو سال کے آخر میں دیا جاتا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں ملازم کی ماہانہ تنخواہ سے جو رقم کاٹی جاتی ہےچوں کہ یہ جبری کٹوتی ہے ،کمپنی اپنی مرضی سے کاٹتی ہے ،ملازم کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا تو ملازمت ختم ہونے کے بعد اس فنڈ سے ملازم کوجتنی بھی رقم ملے گی وہ ملازم کے لیے حلال ہوگی،سود نہیں ہوگی ،اس کو لینا اور استعمال کرنا جائز ہوگا ۔
البحر الرائق میں ہے:
"قوله:(بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر كذا في المحيط لكن ليس له بيعها قبل قبضها."
(کتاب الاجارۃ،ج:7،ص:300،ط:دار الکتاب الاسلامی)
جواہر الفقہ میں حضر ت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ اس مسئلہ سے متعلق لکھتے ہیں:
" جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے ،وہ شرعًا سود نہیں، بلکہ اجرت(تنخواہ)ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے ، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ سود بنا لینے کا خطرہ بھی ہے ، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔"
(ج:3،ص:257،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102523
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن