بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے نکاح کے بارے میں خاندان کو بتانے کا حکم


سوال

 میں جس سے شادی کرنے چاہ رہی ہوں ، وہ پہلے سے شادی شدہ ہیں، ان کی مجھ سے دوسری شادی ہے، وہ باقی چیزوں میں میرا بہت  خیال رکھتے ہیں ، جیسے پہلی بیوی کا ویسے بالکل میرا بھی،  لیکن بات آکر یہاں پے رکی ہےکہ جب میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے خاندان میں بتائیں؛ کیوں کہ  میرے والد صاحب ایسے شادی نہیں کریں گے، انہوں نے اپنی پہلی بیوی کو بتا دیا ہے،  لیکن اپنی بہنوں اور اپنے بھائی بھابھی یا خاندان میں نہیں بتایا ہے،  میں نے ان سے کہا تو یہ غصے میں بولے کہ میں خاندان میں نہیں بتاؤں گا، اس پر ہمارے درمیان لڑائی نوک جھوک ہوئی،  میں نے کہا کہ میرے  دل میں ہے کہ آپ کی بہنیں میرےگھر آئیں، مطلب جب ہماری شادی ہو جائے  میں بھی ان کی دعوتیں کروں، میرا دل بھی چاہتاہے جیسے آپ اپنی پہلی بیوی کو اپنے خاندان میں ہر شادی میں خوشی او ر غمی میں  لے کر جاتے ہیں اسی طرح میں بھی چاہتی ہوں کہ آپ مجھے بھی لےکر جایاکریں تو اس پر انہوں نے غصے میں کہا کہ نہیں بتاؤں گا میں ، میں چپ ہو گئی بحث و مباحثہ نہیں کیا ۔  وہ اس  لیے نہیں بتانا چاہ رہے کہ ان کو یہ لگتا ہے  کہ خاندان میں بتائیں گے تو خاندان والے ان کی پہلی بیوی کو طعنہ دیں گے کہ تمہاری وجہ سے وہ دوسری  کررہا ہے، لیکن دوسری طرف میری بھی دل آزاری ہورہی ہے کہ مجھے خاندان میں لے کر نہیں جائیں گے؛ کیوں کہ لڑکی کا سسرال ہی اس کا دوسرا گھر ہوتا ہے ۔

پوچھنا یہ چاہ رہی تھی اسلام کی روشنی میں  ان کو کیا کرنا چاہیے؛ کیوں کہ  مجھے کہا ہے کہ میں  بتادوں گا خاندان میں،  تھوڑا ٹائم  لگےگا لیکن بتادوں گا۔  آیا بیویاں تو دونوں برابر ہوتی ہیں تو ان کو میرا حق یہاں پر دینا چاہیے کہ اگر یہ خاندان میں بتادیتے ہیں تو میں غلط تو نہیں کررہی؟  اور دوسرا اگر یہ  خاندان میں بتادیتے ہیں تو اس صورتِ  حال میں ہم دونوں بیویوں کو کیا کرنا  چاہیے؟ اور تیسرا اسلام اور دین و دنیا دونوں کو  مدّ نظر رکھتے ہوۓ ان کو کیا کرنا چاہیےبتانا  چاہیے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ شوہر کو دوسری شادی کے بارے میں  اپنے خاندان کو بتانا ضروری نہیں ہے،البتہ شوہراگر دوسری شادی کرے تو اس  پر واجب ہے کہ وہ اپنے بیویوں کے درمیا ن شب گزاری  ،  کھانے پینے وکپڑوں  میں   برابری اور انصاف کا معاملہ کرے  ،تا کہ ان کے درمیان شوہر کی طرف سے کوئی حق تلفی نہ ہو ،لیکن دوسری بیوی کو دعوتوں میں لے جانا خاندان سے ملاقات کرانا یہ ان امور میں نہیں ہے جہاں دو بیویوں کے درمیان عدل ضروری ہو تاہم  شوہر  کو چاہئے کہ وہ مناسب انداز میں اپنے خاندان کو اس سلسلہ میں اعتماد میں لینے کی کوشش کرے،    اور بیوی کو چاہیے  کہ وہ  اس سلسلہ میں صبر  سے کام لے اور اسےلڑائی جھگڑے کا باعث نہ بنائے  ،اور ان کے خاندان میں سے جو  اس کولعن طعن کرے گا وہ گناہ گار ہوگا۔

رد المحتار میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب."

(کتاب النکاح، باب القسم بین الزوجات، ج: 3، ص: 202، ط: دار الفکر )

تاترخانیہ میں ہے : 

"عن الحسن المطیع لو كان لرجل ثلاث نسوة و الف جارية فلامه انسان اذا سمع انّہ تزوج برابعة او اشتري جارية اخري اخشي عليه الكفر علي الملامة  لان الله تعالي قال "فانهم غير ملومين".

( کتاب النکاح، ج:4، فصل:26، ص:346، ط:مكتبة زكريا بديوبند الهند) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں