بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت حمل میں طلاق دے کر زوجیت سے الگ کردیا کہنے کا حکم


سوال

ایک شخص اپنی بیوی کو دوران حمل ایک طلاق دیتا ہے،دس دن بعد بچہ پیدا ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں تو عدت ختم ہو جائے گی،پھر کچھ عرصہ بعد وہ دوسری طلاق دیتا ہے اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ تیسری طلاق بھی دے دیتا ہے پوچھنا یہ ہے کہ بچہ کے ولادت کے بعد پہلی طلاق موثر ہوچکی ہے،اگر ہو چکی ہے تو کیاوہ دونوں نکاح کر سکتے ہیں؟

وضاحت :طلاق کے الفاظ یہ ہیں "میں نے ایک طلاق دے کر اپنی زوجیت سے الگ کر دیا ہے "۔

جواب

صورت مسئولہ میں شوہر کا اپنی بیوی کو حمل کے دوران یہ کہنا "میں نے ایک طلاق دے کر اپنی زوجیت سے الگ کردیا ہے " اس سے  بیوی پر ایک طلاق بائن  واقع ہوگئی تھی ،اور نکاح ختم ہوگیا تھا ،اور عدت (بچے کی پیدائش ) گزرچکی ہے ،لہذا اس کی بیوی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ،البتہ اگر میاں بیوی  دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تو باہمی رضامندی سے  از سرِ نو نئے مہر کے ساتھ نکاح کرلیں، دوبارہ نکاح کی صورت میں شوہر آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔

قرآن مجید میں ہے :

"وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ."

(سورة الطلاق )

الدر المختار میں ہے :

"(و حلّ طلاقهن) أي الآيسة و الصغيرة و الحامل."

(کتاب الطلاق،رکن الطلاق،ج:3،ص:232،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا قال لها أبرأتك عن الزوجية يقع الطلاق من غير نية في حالة الغضب وغيره كذا في الذخيرة."

(کتاب الطلاق،الباب الثانی فی ایقاع الطلاق،ج:1،ص:376،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101915

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں