بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت حیض میں سورہ بقرہ کی تلاوت کرنا


سوال

کیا ماہواری کےدنوں   میں سورہ بقرہ پڑھ سکتے ہےجب کے پڑھائی ضروری ہو اور کوئی دوسرا پڑھنے والا نہ ہو؟

جواب

واضح رہے کہ خواتین کے لیے ماہواری کے دنوں میں قرآن کریم نہ دیکھ کر پڑھنا جائز ہے اور نہ ہی زبانی پڑھنے یا سنانے کی اجازت ہے،جیساکہ "سننِ ترمذی" میں بروایتِ عبد اللہ ابن عمر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ حائضہ (وہ خاتون جو حیض کے ایام میں ہو) اور جنبی ( وہ مرد جس پر غسل فرض ہو) قرآن مجید میں سے کچھ بھی نہیں پڑھ سکتے۔

البتہ قرآن کریم کی وہ  آیات جو دعا کے معنی پرمشتمل ہوں انہیں دعا یا وظیفہ، یا ذکر کے طور پر پڑھنا جائز ہے،اسی طرح تعلیمی ضرورت کی وجہ سے قرآن پڑھانےوالی معلمہ کےلیے کلمہ کلمہ، لفظ لفظ الگ الگ کرکے یعنی ہجے کرکے ( مثلا:" الحمد" الگ سانس میں ۔۔۔۔"  للہ "الگ سانس میں۔۔۔۔"  رب"الگ سانس میں ۔۔۔ العالمین الگ سانس میں)پڑھنےکی گنجائش ہے۔

سورہ ِبقرہ بھی چوں کہ قرآنِ کریم کی ایک سورت ہے،اس لیےسورہ بقرہ کوبھی ماہواری کے دنوں میں دیکھ کریابغیر دیکھےپڑھناجائزنہیں ہے۔

البتہ سورہ بقرہ کی جوآیات دعا کے معنی پرمشتمل ہیں (جیسے آیۃ الکرسی، آخری آیت اور  ربنا آتنا ) صرف انہیں دعا یا وظیفہ، یا ذکر کے طور پر پڑھنا جائز ہے،اسی طرح سائلہ اگرطالبہ ہے،اورسائلہ کےلیےسورہ بقرہ پڑھناامتحان کی وجہ سےیابھولنےکےاندیشےکی وجہ سےضروری ہےتوسائلہ دل دل میں پڑھے زبان سے الفاظ کی ادائیگی نہ کرے۔

سنن ترمذی میں ہے :

"عن إبن عمر رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: لاتقرأ الحائض و لا الجنب شيئاً من القرآن."

(باب ما جاء في الجنب و الحائض أنهما لا يقرآن القرآن، رقم الحديث: ١٣١، ط: دار السلام)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وقراءة قرآن) بقصده (ومسه) ولو مكتوبا بالفارسية في الأصح (وإلا بغلافه) المنفصل كما مر (وكذا) يمنع (حمله) كلوح وورق فيه آية (ولا بأس) لحائض وجنب (بقراءة أدعية ومسها وحملها وذكر الله تعالى، وتسبيح) وزيارة قبور، ودخول مصلى عيد(قوله بقصده) فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به كما قدمناه عن العيون لأبي الليث وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية."

(کتاب الطہارۃ ، باب الحیض ج :1،ص:292،ط:سعید)

وفيها أيضا:

"(ويحرم بالحدث) (الأكبر دخول مسجد).............(و) يحرم به (تلاوة القرآن) ولو دون آية على المختار (بقصده) فلو قصد الدعاء أو الثناء أو افتتاح أمر أو التعليم ولقن كلمة كلمة حل في الأصح، حتى لو قصد بالفاتحة الثناء في الجنازة لم يكره إلا إذا قرأ المصلي قاصدا الثناء فإنها تجزيه؛ لأنها في محلها، فلا يتغير حكمها بقصده (ومسه) مستدرك بما بعده، وهو وما قبله ساقط من نسخ الشرح، وكأنه لأنه ذكره في الحيض.

(قوله: ولو دون آية) أي من المركبات لا المفردات؛ لأنهجوز للحائض المعلمة تعليمه كلمة كلمة يعقوب باشا.

(قوله: ولقن كلمة كلمة) هو المراد بقول المنية حرفا حرفا كما فسره به في شرحها، والمراد مع القطع بين كل كلمتين، وهذا على قول الكرخي، وعلى قول الطحاوي تعلم نصف آية نهاية وغيرها. ونظر فيه في البحر بأن الكرخي قائل باستواء الآية وما دونها في المنع. وأجاب في النهر بأن مراده بما دونها ما به يسمى قارئا وبالتعليم كلمة كلمة لا يعد قارئا اهـ ويؤيده ما قدمناه عن اليعقوبية. بقي ما لو كانت الكلمة آية ك - ص - و - ق - نقل نوح أفندي عن بعضهم أنه ينبغي الجواز. أقول: وينبغي عدمه في - {مدهامتان} [الرحمن: 64]- تأمل."

(كتاب الطہارۃ، سنن الغسل، 172/1،ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا ‌حاضت ‌المعلمة فينبغي لها أن تعلم الصبيان كلمة كلمة وتقطع بين الكلمتين ولا يكره لها التهجي بالقرآن. كذا في المحيط."

(کتاب الطہارۃ، الباب السادس، الفصل الرابع،1/ 38، ط: دارالفکر)

امداد  الفتاوی  میں ہے:

"امر رابع: اگر قران بقصد تلاوت نہ پڑھا جاوے بلکہ بقصد دعا پڑھا جاوے جبکہ اس میں دعا کا معنی ہوں تو اکثر  کے نزدیک جائز ہے بعض نے اس پر فتوی نہیں دیا۔"

(کتاب الطہارۃ ، باب الحیض و النفاس و الاستحاضہ ج :1، ص:107،مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101979

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں