بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو طلاق بائن کا حکم


سوال

میری شادی کو اٹھارہ سال ہوگئے، میں نے شادی کے چوتھے سال اپنی بیوی کو ایک دفعہ یہ الفاظ کہے کہ" میں تم کو طلاق دیتا ہوں"، اس کے بعد یہ جملہ نہیں دہرایا،اور اسی مہینے رجوع کر لیاتھا، پھر دس سال بعد کسی اور وجہ سے میں نے کہا کہ" تم چلی جاؤ، میری طرف سے آزاد ہو"،  اسلام و قرآن کی روشنی میں بتائیں کہ کیا ہماری طلاق ہوگئی؟ ان باتوں سے جو غصےکہی گئیں کیا اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے پہلی دفعہ اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہے کہ " میں تم کو طلاق دیتا ہوں"، تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی تھی، پھرجب اسی مہینے  رجوع کر نے کے دس سال بعد اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہے کہ " تم چلی جاؤ، میری طرف سے آزاد ہو" تو اس سے مزید ایک اور طلاقِ بائن واقع ہوگئی، نکاح ٹوٹ، گیا، رجوع نہیں ہو سکتا ہے، البتہ اگر سائل اور اس کی مطلقہ دوبارہ رہنا چاہیں تو از سرِ نو شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں، اس صورت میں سائل کو آئندہ کے لیے صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح.... (لا) يلحق البائن (البائن)."

(قوله ‌الصريح ‌يلحق ‌الصريح) كما لو قال لها: أنت طالق ثم قال أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني بحر، فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا أو بائنا (قوله ويلحق البائن) كما لو قال لها أنت بائن أو خلعها على مال ثم قال أنت طالق أو هذه طالق بحر عن البزازية. ثم قال: وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة."

(كتاب الطلاق، ‌‌باب الكنايات، مطلب ‌الصريح ‌يلحق ‌الصريح والبائن،306/3،،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(الفصل الخامس في الكنايات) لايقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام: (ما يصلح جوابًا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابًا وردًّا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابًا وشتمًا) خلية برية بتة بتلة بائن حرام... ففي حالة الرضا لايقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية."

(کتاب الطلاق، ‌‌الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج: 1، ص: 374، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144507100913

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں