بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دشمن کے شر کے دفعیہ کے لیے روزہ رکھنا


سوال

 22 جنوری رام مندر کی افتتاح کیاجارہاہے ، میں ایک ہندوستان کے ایک مدرسہ میں پڑھتا ہوں ہے جہاں 21 جنوری کو رام مندر کی ابتداء ہونے کی وجہ سے مدرسہ میں روزہ رکھا جا رہا ہے کیا یہ شرعا درست ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  ہندوستانی حکومت کا     مسجد   پر قبضہ کرکے  اس کو  مندر بنانے کے  ناجائز ، ظالمانہ اور غیر اخلاقی اقدام  کے شر کے دفعیہ کی نیت سے  مذکورہ مدرسہ میں  روزہ رکھنا اور  روزہ رکھ کر اللہ سے دعا کرنا جائز ہےاور   طلباء کو اس کی ترغیب بھی دی جاسکتی ہے کہ روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں کریں ، البتہ اس روزہ کو سنت  یا لازم نہ سمجھا جائے ، نہ ہی کسی کو روزہ رکھنے پر مجبور کیا جائے اور روزہ نہ رکھنے والوں پر طعن وتشنیع بھی نہ کی جائے ۔

مرقاۃ المفاتیح لملا علی قاری میں ہے:

"وعن أنس - رضي الله عنه - أن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب فقال:اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا، قال: فيسقون،قال ابن حجر: واستسقى معاوية بيزيد بن الأسود فقال: اللهم إنا نستسقي بخيرنا وأفضلنا، اللهم إنا نستسقي بيزيد بن الأسود، يا يزيد: ارفع يديك إلى الله، فرفع يديه ورفع الناس أيديهم، فثارت سحابة من المغرب كأنها ترس، وهبت ريح فسقوا حتى كاد الناس لا يبلغون منازلهم."

(كتاب الصلاة، باب الاستسقاء، الفصل الثالث،  3/ 1113، ط: دار الفكر بيروت)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك ،ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته."

(الباب الاول فی تعریف البدع وبیان معناھا،51 /1، ط: دار ابن الجوزی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100777

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں