بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سسرال کو دوسرا گھر کہنا


سوال

میرے چچا میرے سسر بھی ہیں  تو کیا میں سسرال والے گھر کو اپنا دوسرا گھر بول سکتا ہوں؟

ایسا سنا ہے کہ اللہ نے مرد کے شادی کے بعد دو گھر بنائے ہیں،  ایک اس کے اپنے والدین کا گھر اور دوسرا اس کے سسرال کا گھر۔  (واضح رہے کہ جائیداد کی نسبت سے بات نہیں کر رہا۔)

جواب

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے سسرالی رشتے کو منجملہ اپنی نعمتوں میں شمار فرمایا ہے، ارشادِ مبارک ہے:

Ra bracket.pngوَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًاLa bracket.png[الفرقان:54]

ترجمہ: "اور وہ ایسا ہے جس نے پانی سے (یعنی نطفہ سے) آدمی کو پیدا کیا، پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا، اور (اے مخاطب) تیرا پروردگار بڑی قدرت والا ہے۔ " (بیان القرآن للتھانوی)

تاہم  یہ الفاظ کہ "اللہ نے مرد کے شادی کے بعد دو گھر بنائے ہیں،  ایک اس کے اپنے والدین کا گھر اور دوسرا اس کے سسرال کا گھر" قرآن مجید میں بھی نہیں  ہیں، اور   احادیث کی کتب میں  بھی ایسی کوئی روایت نظروں سے نہیں گزری۔

باقی اگر کوئی شخص سسرال کو اپنا دوسرا گھر بولتا ہے تو شرعاً ممنوع بھی نہیں۔ لیکن اسے محض اپنا گھر بولنے سے کہنے والے اور اس کی بیوی کا وطنِ اَصلی نہیں بنے گا، یعنی اگر کہنے والے کا سسرال اس کے اپنے وطن سے مسافتِ سفر پر واقع ہے  تو سسرال میں پندرہ دن سے کم قیام کی صورت میں چار رکعات والی فرض نمازوں میں قصر کرنی ہوگی۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102451

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں