بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جوے پر مشتمل کارڈ کی لین دین کا حکم


سوال

حال ہی میں ایک قسم کا کارڈ مارکیٹ میں لایا گیا ہے ( جو کہ کمپنی کا کارڈ ہے کسی بینک کا نہیں ہے )، جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں: اس کارڈ کو خریدنے کے لیے آپ کو 100 (ایک سو) ٹکے درکار ہیں، جس کے ذریعے آپ ہمارے ممبر بن سکتے ہیں۔

کارڈ کو سکریچ کرنے کے بعدآپ وہ پروڈکٹ خریدسکتے ہیں جس کا نام سکریچ کارڈ پر لکھا ہوا ہے ،6600 (چھ ہزار چھ سو) روپے کا ۔ کارڈ سکریچ ہونے کے بعد اگر اسکریچ کارڈ پر پروڈکٹ کا نام نہیں لکھا ہوا ہے تو آپ کو 200 (دو سو) ٹکا کا تحفہ ملے گا۔ پروڈکٹ خریدتے وقت آپ کو کارڈ پر 100 روپے واپس ملیں گے۔ اس کارڈ کی میعاد 3 (تین) ماہ ہے۔ آپ 3 ماہ کے اندر پروڈکٹ خرید  سکتے ہیں۔ 100% گارنٹی اور وارنٹی کے ساتھ، مصنوعات کی  ہوم ڈیلیوری مفت ہے، مصنوعات کے لیے کوئی رقم کی واپسی نہیں ہے۔ میں مفتی صاحب سے جو جاننا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیا مذکورہ طریقہ شریعت کے مطابق ہے یا نہیں؟ کیا اس طریقے سے لین دین جائز ہے؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں  مذکورہ طریقہ  کئی شرعی قباحتوں( مبیع کا معلوم نہ ہونا ،جوااور قمار کی صورت ) کی وجہ سے  جائز نہیں ؛لہذا مذکورہ طریقہ کے مطابق لین دین کرنا شرعاً  جائز نہیں ،اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح كبيع شاة من هذا القطيع وبيع شيء بقيمته وبحكم فلان."

(کتاب البیوع،الباب الاول فی تعریف البیع ،ج:3،ص:3،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"لأن ‌القمار ‌من ‌القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة والنقصان لا تمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلا تكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي."

(كتاب الحظر والاباحة،فصل في البيع،ج:6،ص:403،سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506102361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں