بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

باغبانی کرنے والوں کا اپنا حصہ بیچنا اور دوسرے شخص کا اس میں شفعہ کا حق دائر کرنا


سوال

 ہم نے ایک زمین کسی شخص سے لی اس شرط پر کہ ہم آپ کو باغ بنا کر پھلوں میں سالانہ پانچواں حصہ مالک کو دیں گے، اور انہوں نے زمین ابھی تک بیچی نہیں،  اس کے بعد ہم تمام گھر والوں نےاس زمین کے  حصے باغبانی کرنے کے اعتبار سے تقسیم کیے، اس میں ہماری والدہ اور بہن کا مشترکہ طور پر ایک حصہ تھا تو ہماری والدہ اور بہن نے اپنا حصہ میرے بھائیوں میں سے کسی کو خاموشی سے بیچا ایک لاکھ روپے میں، جب مجھے پتہ چلا تو پھر میں نے شفعہ کا دعوی کر دیا۔ اب ہم شفعہ کا حق حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں؟ قیمت وہی ایک لاکھ روپے یا دوبارہ قیمت لگائیں گے؟

تنقیح: زمین انہوں نے ہمیں نہیں بیچی ہے ابھی تک انہی کی ہے ۔بس ہم آباد کاری اس میں کر کے پھلوں میں سے ہر سال ان کو پانچواں حصہ دیتے ہیں۔ 

جواب

واضح رہے کہ شفعہ کا حق ثابت ہونے کا سبب یہ ہے شفعہ کرنے والے کی  ملکیتی زمین مشتراۃ (خریدی ہوئی زمین) سے ملی ہوئی ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں اولاً سائل (شفعہ کرنے والا) اس اپنی زمین کا مالک ہی نہیں جس کی وجہ سے وہ شفعہ کادعوی کرسکے، نیز والدہ اور بہن کا اپنے حصے والی زمین کو ایک لاکھ میں بیچنا بھی شرعاً ناجائز  ہے، کیوں کہ یہ باغبانی کرنے کا مجرد حق بیچنا ہے زمین بیچنا نہیں ہے کیوں کہ وہ اس زمین  کے مالک نہیں ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ سائل یہاں حق شفعہ دائر نہیں کرسکتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسببها اتصال ملك الشفيع بالمشترى) بشركة أو جوار.

 (وشرطها: أن يكون المحل عقارا)".     

(کتاب الشفعة، ج:6، ص:217، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(لا تثبت قصدا إلا في عقار ملك بعوض) خرج الهبة (هو مال) خرج المهر (وإن لم) يكن (يقسم۔۔۔۔۔ لا في عرض وفلك وبناء ونخل) إذا (بيعا قصدا) ولو مع حق القرار". 

(كتاب الشفعة، ج:6، ص:237، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف

(قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها".

(کتاب البیوع، ج:4، ص:518، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102181

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں