بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرپٹو کرنسی کو فروخت کرکے رقم حاصل کرنا


سوال

اپلیکیشن ڈان لوڈ کرنے کے بعد اس کو روزانہ کھولنے سے پائی کرنسی میں تھوڑا تھوڑا اضافہ ہوتا رہتا ہے،  یہ سب فری ہوتا ہے،  بعد میں یہ کرنسی مارکیٹ میں بک جاتی ہے،  اس طرح ان کی ویب سائٹ کھولنے سےیہ کرنسی ملتی ہے اس کو ہم خریدتے نہیں اور بس ایک ہی دفعہ فروخت کر دیتے ہیں اس کے بارے کیا حکم ہے۔

تنقیح:

آپ كا سوال واضح نهيں هے، اس ميں درج ذیل امور کی وضاحت  مطلوب ہے:

1: مذکورہ اپلیکشن اور ویب سائٹ  کون سی ہے، ان کے کام ومقاصد  اور طریقہ کا ر کیا ہے؟

2: کرنسی کس قسم کی ہے؟

3: اس کی خریدوفروخت کا کیا طریقہ ہے؟

پوری تفصیل لکھ کر سوال دوبارہ ارسال کریں ان شاء اللہ جواب دے دیا جائے گا۔

جواب تنقیح:

اس کی ویب سائٹ روزانہ ایک دفعہ کھولنےسےکرنسی میں فری تھوڑا سا اضافہ ہوتا ہے ، دو سال میں تقریباً 250 پائ ہوئے ہیں ، یہ ڈیجیٹل کرنسی ہے،  میں خریدتا نہیں ہوں،  یہ سب مجھے دو سال میں فری ملے ہیں۔ اب میں ان کو فروخت کرنا چاہ رہا ہوں باقاعدہ میں خرید و فروخت کا کاروبار نہیں کرتا اور ویب سائٹ کھولنے پر کوئ فحش چیز بھی نہیں ہوتی۔اب ان کو فروخت کر کے میں یہ رقم استعمال کر سکتا ہوں۔

جواب

سوا ل میں   جس قدر وضاحت سائل نے پیش کی ہے، اس سے یہ واضح ہے کہ  مذکورہ ویب سائٹ کھولنے پر کچھ ڈیجیٹل کرنسی ملی ہے، اس کو فروخت کرکے حاصل شدہ رقم کے استعمال کا حکم دریافت کرنا مقصود ہے تو   اس  کا شرعی حکم یہ ہے کہ  کرپٹو کرنسی    میں چوں کہ حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط موجود نہیں ہیں، یہ مال نہیں ہے؛   کیونکہ مال کے لیے چیز کا حقیقی اور مادی ہونا ضروری ہے جبکہ کرپٹو کرنسی تقسیم شدہ کھاتے(distributed ledger)  میں ہندسوں کے  اندراج کا نام  ہے اور اسی اندراج کو کرنسی یا ٹوکن یا اثاثہ فرض کر لیا گیا ہے جس کا خارج میں حقیقی اور مادی  وجود نہیں  ہے،اس  لیے اس کو فروخت کرنا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کا استعمال جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(بطل بيع ما ليس بمال)....(والمعدوم كبيع حق التعلي) أي علو سقط؛ لأنه معدوم.

(قوله: والمعدوم كبيع حق التعلي) قال في الفتح: وإذا كان السفل لرجل وعلوه لآخر فسقطا أو سقط العلو وحده فباع صاحب العلو علوه لم يجز؛ لأن المبيع حينئذ ليس إلا حق التعلي، وحق التعلي ليس بمال؛ لأن المال عين يمكن إحرازها وإمساكها ولا هو حق متعلق بالمال بل هو حق متعلق بالهواء، وليس الهواء مالا يباع والمبيع لا بد أن يكون أحدهما."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد ، 5/ 50، ط:  سعید)

تبیین الحقائق میں ہے:

"ووجه الفرق بين حق التعلي حيث لا يجوز بيعه باتفاق الروايات وبين حق المرور في الطريق حيث يجوز بيعه في رواية ابن سماعة أن حق المرور متعلق برقبة الأرض ورقبة الأرض مال وهو عين فما تعلق به كان له حكم المال وحق التعلي متعلق بالهواء والهواء ليس بعين مال ولا له حكم المال فلا يجوز."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، 4/ 52، ط: مطبعة الکبری الامیریة)

 الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"والمراد بالمال عند الحنفية: ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم. وقد انتقد الأستاذ الزرقاء هذا التعريف، واستبدل به تعريفاً آخر، فقال: المال هو كل عين ذات قيمة مادية بين الناس . وعليه لا تعتبر المنافع والحقوق المحضة ما لاً عند الحنفية."

(القسم الثالث، فصل اول، مبحث اول، مطلب اول، 5/ 3305، ط: دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں