بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زیر ناف بالوں کی صفائی کا حکم


سوال

زیر ناف بالوں کی صفائی کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ پانچ چیزیں انسان کی فطرتِ سلیمہ کے تقاضے اور دینِ فطرت کے خاص احکام ہیں ۔ ختنہ ، زیرِ ناف بالوں کی صفائی ، مونچھیں تراشنا ، ناخن لینا اور بغل کے بال لینا۔

      ناف کے نیچے کے بال اور بغل کے بال صاف کرنا سنت اور امورِ فطرت میں  سے ہے، ہفتہ میں ایک مرتبہ صفائی کرنا مستحب اور خاص جمعہ کے دن اس کا اہتمام کرنا باعثِ فضیلت ہے، پندرہ دن کی تاخیر سے کرنا بھی جائز ہے، لیکن  چالیس دن سے زائد چھوڑے رکھنا مکروہِ تحریمی ہے، جو شخص اِن بالوں کو چالیس دن کے اندر  صاف نہیں کرے گا  وہ گناہ گار ہوگا۔

       زیرِ ناف بال کاٹنے کی حد یہ ہے کہ اگر آدمی اکڑو  بیٹھے  تو ناف سے تھوڑا نیچے، جہاں پیٹ میں بل پڑتا ہے وہاں سے  رانوں کی جڑوں تک اگنے والے بال، مخصوص عضو (آلہ تناسل) اور اس کے ارد گرد کے حصے كے بال، اور خصیتین کے بال اور پاخانے کے خارج ہونے کی جگہ اور اس کے ارد گرد کے بال زیرِ ناف بالوں میں داخل ہیں، لہذا ان سب بالوں کا کاٹنا ضروری ہے۔

پھر مرد   کے حق میں  زیرِ ناف بال کاٹنے  کے لیے بلیڈ  یا استرے کا استعمال  بہتر ہے؛ کیوں کہ اس سے بال جڑ   سے ختم ہوجاتے  ہیں اور  طبی اعتبار سے بھی یہی بہترہے اور عورتوں کے لیے  بالوں کو اچکنا یا پاؤڈر  یا کریم کا استعمال بہتر ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : خمس من الفطرة : الختان ، والاستحداد ، وتقليم الأظفار ، ونتف الإبط ، وقص الشارب.

(أخرجه ابن أبي شيبة في باب «في الفطرة، ما يعد فيها» (2/ 292) برقم (2059)،ط. شركة دار القبلة.الطبعة الاولى: 1427)

عمدۃ القاری میں ہے:

"أراد بالفطرة السنة القديمة التي اختارها الأنبياء عليهم السلام واتفقت عليها الشرائع فكأنها أمر جلى فطروا عليه".

(عمدة القاري: كتاب اللباس، باب قص الشارب (22/ 45)،ط. دار إحياء التراث العربي – بيروت)

بذل المجہود شرح سنن ابی داود میں ہے:

"(والاستحداد) وهو حلق العانة، وهو متفق على أنه سنَّة".

(بذل المجهود، باب في أخذالشارب، (12/ 223)، ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند، الطبعة: الأولى، 1427 هـ - 2006 م)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: وقت لنا في قص الشارب وحلق العانة ونتف الإبط، وتقليم الأظفار: أن لا تترك أكثر من أربعين ليلةً".

(أخرجه ابن ماجه في «باب الفطرة» (1/ 197) برقم (295)،ط. دار الرسالة العالمية، الطبعة: الأولى، 1430 هـ - 2009 م)

فتاوی شامی میں ہے:

"والعانة: الشعر القريب من فرج الرجل والمرأة، ومثلها شعر الدبر، بل هو أولى بالإزالة ؛ لئلا يتعلق به شيء من الخارج عند الاستنجاء بالحجر". 

(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، فصل في الإحرام و صفة المفرد (2 /481) ط: سعید) 

وفیه أيضًا:

"قال في القنية: الأفضل أن يقلم أظفاره ويقص شاربه ويحلق عانته وينظف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع وإلا ففي كل خمسة عشر يومًا ولا عذر في تركه وراء الأربعين ويستحق الوعيد فالأول أفضل والثاني الأوسط والأربعون الأبعد آهـ ."

(كتاب الصلاة، باب العيدين، مطلب في إزالة الشعر والظفر في عشر ذي الحجة (2/ 181)،ط. سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505100635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں